Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان کا افغانستان، تاجکستان سرحد پر قبضہ، ’سکیورٹی اہلکار چوکیاں چھوڑ کر بھاگ گئے‘  

حملے کے وقت کچھ سکیورٹی اہلکار چیک پوسٹ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
افغان حکام نے کہا ہے کہ طالبان نے افغانستان اور تاجکستان کے درمیان سرحد پر قبضہ کر لیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق منگل کو طالبان کے قبضے کے بعد کچھ سکیورٹی اہلکاروں نے اپنی جگہیں چھوڑ دیں جبکہ کچھ سرحد پار چلے گئے۔
امریکی فوج کے انخلا کے مرحلے کے مئی میں شروع ہونے کے بعد طالبان کا شمالی شیر خان بندر پر قبضہ ان کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔
یہ سرحد افغانستان کے شہر قندوز سے 50 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔
قندوز کی صوبائی کونسل کے رکن خالد الدین حکمی نے اے ایف پی کو بتایا کہ طالبان نے تاجکستان کی سرحد پر واقع اس بندرگاہ، قصبے اور چیک پوسٹس پر ایک گھنٹے کے دورانیے میں قبضہ کیا۔
ایک فوجی افسر نے بتایا کہ 'ہمیں زبردستی تمام چیک پوسٹس چھوڑ کر بھاگنا پڑا، اور ہمارے کچھ فوجی سرحد پار کر کے تاجکستان چلے گئے۔'
انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ 'صبح تک وہ (طالبان کے جنگجو) ہر طرف تھے، وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے۔'
طالبان کے ترجمان زبیح اللہ مجاہد نے حملے کی تصدیق کی۔
اس اقدام نے بین الاقوامی برادری کو افغانستان میں امن کے حوالے سے تشویش میں ڈال دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے افغانستان کے لیے معاونت مشن کی سربراہ ڈیبراہ لیونس کا کہنا تھا کہ 'قبضہ کیے جانے والے اضلاع میں سے زیادہ تر صوبائی دارالحکومت کے ارد گرد تھے۔'
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ طالبان کی پوزیشن سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غیر ملکی افوج کے مکمل انخلا کے بعد وہ ممکنہ طور پر ان اہم شہروں پر قبضہ کر لیں گے۔

طالبان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ملک کے 421 اضلاع میں سے 87 پر قبضہ کر لیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

مئی کے اوائل سے طالبان نے کئی بڑے حملے کیے ہیں جن میں حکومتی فورسز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
طالبان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ملک کے 421 اضلاع میں سے 87 پر قبضہ کر لیا ہے۔ تاہم حکومت نے ان دعوں کو مسترد کیا ہے اور ان کی الگ سے تصدیق مشکل ہے۔
صدر اشرف غنی کے وائٹ ہاؤس کے دورے سے تین دن قبل امریکہ نے خون ریزی کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ افغانستان کے مستقبل کے لیے ایک سیاسی روڈ میپ طے کرنے کے لیے امریکہ چاہتا ہے افغان حکومت اور طالبان مذاکرات کریں۔
شیر خان بندر، دریائے پیانج کے جنوب میں واقع ہے اور یہاں ایک پل ہے جو امریکہ کی فنڈنگ سے وسطی ایشیا کے ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا افغان حکومت اور طالبان کو مذاکرات کرنے چاہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

قندوز کے صوبائی چیمبر آف کامرس کے ترجمان مسعود واحدت کا کہنا تھا کہ حملے کے وقت شیر خان بندر پر سامان سے بھرے 150 ٹرک تھے۔ 'ہمیں نہیں معلوم ان کا کیا ہوا۔' انہوں نے بتایا 'یہ ایک بہت بڑا مالی نقصان ہوگا۔'
اس حوالے سے افغان سکیورٹی کے تجزیہ کار عطیق اللہ امرخیل کا کہنا ہے کہ شیر خان بندر پر قبضہ حکومت کے لیے ایک بہت بڑا دھچکہ ہے۔
'اپنی اہم بندرگار کی حفاظت کرنے میں ناکامی اس بات کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے کہ حکومت اب بھی جنگ کے میدان میں قدم بڑھانے کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہے۔'

شیئر: