وزیراعظم عمران خان نے پیر کو خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقام وادی ناران کا دورہ کیا جہاں متعدد منصوبوں کے سنگ بنیاد رکھنے کے بعد انہوں نے صحافیوں سے گفتگو بھی کی، تاہم وزیراعظم کی صحافیوں سے ایڈیٹڈ گفتگو اگلے روز سرکاری ٹی وی (پی ٹی وی) کے ذریعے نشر کی گئی۔
بیس گھنٹوں سے زائد تاخیر کے بعد نشر کی گئی اس گفتگو میں کئی سوالات کو حذف کر دیا گیا اور اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم کی گفتگو کا وہ حصہ نشر نہیں کیا گیا جس میں ان سے ماضی کے دوروں کے برعکس قدرے سخت سوالات کیے گئے۔
مزید پڑھیں
-
’ایف آئی اے کا صحافیوں کو نوٹسز بھیجنا بدترین سنسرشپ ہے‘Node ID: 564151
اسلام آباد سے وزیراعظم عمران خان کے دورے کی کوریج پر جانے والے ایکسپرس ٹی وی سے منسلک صحافی رضوان غلزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’وزیراعظم کی صحافیوں سے گفتگو سے قبل ان کے سٹاف کی جانب سے سیاحت کے شعبے تک ہی سوالات کو محدود کرنے کا کہا گیا، تاہم متعدد صحافیوں کی جانب سے سیاحت کے شعبے سے متعلق سوالات کرنے کے باوجود سرکاری ٹی وی نے وزیراعظم کی گفتگو سنسر کی۔‘
رضوان غلزئی کے مطابق ’وزیراعظم کے دورہ ناران کے موقع پر 2005 کے زلزلہ متاثرین نے نیو بالاکوٹ سٹی سے متعلق احتجاج کیا۔ جب وزیراعظم سے سوال کیا گیا کہ 16 سال سے بے گھر افراد کے لیے جگہ مختص کی گئی ہے لیکن صوبے میں آٹھ سال تحریک انصاف کی حکومت گزرنے کے باوجود ماضی کی حکومتوں کی طرح آپ کی صوبائی حکومت نے بھی ابھی تک کچھ نہیں کیا تو وزیراعظم نے کہا انہیں اس معاملے کا علم ہی نہیں اور وزیراعلیٰ کو اس حوالے سے بات کرنے کی ہدایت دی، تاہم سرکاری ٹی وی چینل پر اس احتجاج سے متعلق سوال نشر نہیں کیا گیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ایک اور صحافی نے سیاحتی شعبے سے متعلق ہی سوال کیا لیکن وہ بھی سنسر کر دیا گیا۔‘
’وزیراعظم سے پوچھا گیا کہ سیاحت آپ کی ترجیح ہے خیبر پختونخوا میں آٹھ سال حکومت کے باوجود سیاحتی مقامات پر سڑکوں اور واش رومز کی سہولت تک نہیں، کوئی انفراسٹرکچر تعمیر نہیں کیا گیا؟‘
اس پر وزیراعظم نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’سیاحت کا فروغ امن کے بغیر ممکن نہیں، بیرونی ممالک کے سیاح خود کو محفوظ سمجھیں تو پاکستان آئیں گے، سیاحت کے حوالے سے صوبائی حکومتوں کو بائی لاز کی تیاری کی ہدایت کی ہے۔‘
وزیراعظم کے دورے کی کوریج کے لیے ناران میں موجود جیو نیوز کے صحافی ایاز اکبر یوسفزئی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’وزیراعظم سے انہوں نے سوال کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت سیاحت کو فروغ دینے کی بات کرتی ہے لیکن خیبرپختونخوا میں ٹورازم کا کوئی وزیر ہی موجود نہیں جبکہ پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے سربراہ کا عہدہ بھی خالی پڑا ہے۔‘
ایاز اکبر کے مطابق ’وزیراعظم سے حکومت کے اعلان کردہ سیاحتی منصوبوں سے متعلق سوالات کیے گئے جو کہ آج تک مکمل نہیں ہوسکے جبکہ وزیراعظم سے یہ بھی سوال پوچھا گیا کہ آپ کی ساری توجہ پنجاب پر ہے اور خیبر پختونخوا کو نظرانداز کر دیا گیا ہے جبکہ صوبے کے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو وزیراعظم بنانے میں ان کا بہت بڑا کردار تھا لیکن آپ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تک نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وزیراعظم نے ان سوالات کے جوابات میں کہا کہ خیبر پختونخوا میں بہت کام ہو رہا ہے اور محمود خان بہت زبردست طریقہ سے منصوبوں کو آگے لے کر بڑھ رہے ہیں۔‘
وزیراعظم کی میڈیا ٹاک تاخیر سے کیوں نشر کی گئی؟
سوشل میڈیا پر اس حوالے سے وزیراعظم کی میڈیا ٹیم کو ہدف تنقید بنایا جارہا ہے۔ عمومی طور پر وزیراعظم کی صحافیوں سے گفتگو چند گھنٹوں بعد ہی نشر کر دی جاتی ہے لیکن اس بار ایک دن کی تاخیر سے وزیراعظم کی گفتگو نشر ہوئی۔
سوشل میڈیا صارفین یہ بھی تنقید کر رہے ہیں کہ وزیراعظم اپنے دوروں کے دوران عمومی طور پر ایسے سوالات لیتے ہیں جو کہ حکومتی پالیسی کے مطابق ہوں اور سوالات سے قبل صحافیوں سے سوالات کے بارے پوچھا بھی جاتا ہے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گِل نے اس حوالے سے ٹوئٹر کے ذریعے وضاحت دی ہے۔ اپنی ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ’کل ناران میں وزیراعظم کی میڈیا کے دوستوں سے بات چیت ہوئی۔ میڈیا ٹیم ناران سے براستہ سڑک رات بہت لیٹ پہنچی۔ وہ بات چیت آج (منگل) میڈیا سے شیئر کی جائے گی۔‘
کل ناران میں وزیراعظم صاحب کی میڈیا کے دوستوں سے بات چیت ہوئی۔ میڈیا ٹیم ناران سے براستہ سڑک رات بہت لیٹ پہنچی۔ وہ بات چیت آج میڈیا سے شئیر گی جائے گی۔
— Dr. Shahbaz GiLL (@SHABAZGIL) June 29, 2021