Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹرمپ انتظامیہ کا فیصلہ تبدیل، امریکہ میں سزائے موت پر دوبارہ پابندی

اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے کہا کہ ’ملک میں مسلسل سزائے موت کے عمل سے تشویش پائی جاتی ہے‘ (فوٹو: یو پی آئی)
امریکی اٹارنی جنرل نے وفاقی سطح پر سزائے موت پر عارضی طور پر پابندی لگا دی ہے، جبکہ اس معاملے کے طریقہ کار اور پالیسی کا جائزہ لیا جانا باقی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ’یہ فیصلہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں دی گئی ریکارڈ موت کی سزاؤں کے برعکس ہے۔‘
تاہم موجودہ صدر جو بائیڈن سزائے موت کے خلاف ہیں اور ان کے اقتدار سنبھالنے سے لے کر اب تک کسی کو موت کی سزا نہیں دی گئی۔
اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے پابندی کے لیے لگائے گئے دو صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا کہ ’ملک میں مسلسل سزائے موت کے عمل سے تشویش پائی جاتی ہے۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’اس وقت تک کسی کو سزائے موت نہیں دی جائے گی جب تک محکمہ انصاف کی پالیسیوں اور طریقہ کار کا جائزہ نہیں لے لیا جاتا۔‘
اٹارنی جنرل کے مطابق ’محکمہ انصاف کو یہ بات یقینی بنانی چاہیے کہ فیڈرل کریمینل جسٹس سسٹم میں ہر کسی کو نہ صرف آئین و قانون کے مطابق حقوق ملیں، بلکہ شہریوں کو انسانیت کی بنیاد پر انصاف ملے۔‘
امریکہ میں زیادہ تر موت کی سزائیں وفاقی حکومت کے بجائے ریاستوں نے دی ہیں۔ وفاقی سطح پر زیادہ تر منشیات کی سمگلنگ، دہشت گردی یا جاسوسی کے جرم میں سزائے موت دی جاتی ہے۔

جولائی 2020 سے ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے اقتدار کے آخری ایام تک 13 قیدیوں کو موت کی سزا دی گئی (فوٹو: گیٹی امیجز)

امریکی حکومت نے 17 برس میں کسی کو سزائے موت نہیں دی تھی، لیکن جولائی 2020 سے ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے اقتدار کے آخری ایام تک 13 قیدیوں کو موت کی سزا دی گئی۔

شیئر: