گذشتہ روز عدالت نے ضمانت کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو آج صبح سنایا گیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ’ملزمان کے خلاف کافی مواد موجود ہے کہ انہوں نے ناقابل ضمانت جرم کیا۔‘
’عدالت ملزمان کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کرتی ہے۔‘
عدالتی فیصلے کے مطابق ملزم ذاکر جعفر نے مرکزی ملزم کی مدد کی اور جان بوجھ کر حقائق چھپائے اور پولیس کو واقع کی بروقت اطلاع نہ دی۔ ’نتیجتاً مرکزی ملزم کو قتل کرنے میں سہولت فراہم کی اور وقوعہ کے بعد شواہد چھپانے کی بھی کوشش کی گئی۔‘
عدالت کا کہنا ہے کہ ’ریکارڈ کے مطابق ملزم نے نور مقدم کو تشدد کا نشانہ بنایا بہیمانہ قتل کیا اور سر دھڑ سے الگ کر دیا۔‘
’تفصیلی ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے کہ ملزم اور اس کے والد کے درمیان رابطہ ہوا تھا۔ ذاکر جعفر بھی جرم میں شریک ہیں۔‘
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پراسیکوشن کے مطابق ملزم قتل کی واردات کے دوران اپنے بیٹے سے مسلسل رابطے میں تھا۔
عدالت کے مطابق ’ملزمان نے سنگین نوعیت کے جرم میں معاونت کی۔ ضمانت کے غیر معمولی ریلیف کے مستحق نہیں ہیں۔‘
ظاہر جعفر کا پمز ہسپتال میں چیک اپ، سوشل میڈیا پر اعتراضات
پمز اسپتال کے ترجمان ڈاکٹر وسیم خواجہ کے مطابق نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو بدھ کی سہ پہر ہسپتال لایا گیا تھا۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ظاہر جعفر کو سر درد کی تکلیف پر چیک اپ کے لیے لایا گیا تھا۔
ظاہر جعفر کو سر درد کی شکایت پر پمز اسپتال لے جانے پر ٹوئٹر صارفین سوالات اٹھاتے نظر آئے۔
فاطمہ بھٹو نے لکھا کہ ’اگر تمام قیدیوں کو سر درد کی تکلیف پر پمز ہسپتال لے جانے کی اجازت ہے تو ٹھیک ہے ورنہ صرف ظاہر جعفر کو یہ سہولت فراہم کرنا اختیارات کے غلط استعمال کے مترادف ہے۔‘
ایک اور صارف خدیجہ صدیقی نے لکھا کہ ’جیل حکام عام قیدیوں کو بیماری کی حالت میں مرنے چھوڑ دیتے ہیں۔ جیل میں وی آئی پی ٹریٹمنٹ حاصل کرنے کے لیے آپ کی ڈیپ پاکٹس ہونی چاہییں۔‘
ایمنیسٹی انٹرنیشنل سے منسلک رمل محی الدین نے لکھا کہ ’تمام جیلوں میں میڈیکل افسران اور دوائیاں موجود ہوتی ہیں، قیدی اسی صورت میں ہسپتال منتقل کیے جاتے ہیں جب جیل میں وہ سہولیات میسر نہ جن کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔ صرف سر کا درد پمز اسپتال کے دورے کے لیے کافی نہیں۔‘