’لو ٹرائی اینگل‘ کی بانی ہوں، دوسروں نے بعد میں ایسی کہانیاں لکھیں: عمیرہ احمد
’لو ٹرائی اینگل‘ کی بانی ہوں، دوسروں نے بعد میں ایسی کہانیاں لکھیں: عمیرہ احمد
ہفتہ 28 اگست 2021 11:03
عنبرین تبسم
ڈرامے کے مرکزی کرداروں کے لیے ماہرہ خان اور کبریٰ خان کے نام عمیرہ احمد نے تجویز کیے
کاہے مل کے بچھڑے تھے آنسوؤں میں ڈوبے تھے
شکوہ بھی کیا کرتے، ہم کہاں کے سچے تھے
سوشل میڈیا پر صارفین گذشتہ کچھ دنوں سے ’ہم کہاں کے سچے تھے‘ ڈرامے کے اس اوریجنل ساؤنڈ ٹریک (او ایس ٹی) کے بول شیئر کرتے ہوئے اس ڈرامہ سیریل کے لیے پسندیدگی کا اظہار کر رہے ہیں۔
ویسے تو جب سے اس ڈرامے کا پرومو ریلیز ہوا تھا شائقین بے صبری سے اسے دیکھنے کے منتظر تھے جس کی بڑی وجہ اس ڈرامے کی سٹار کاسٹ تھی۔
اداکارہ ماہرہ خان نے چھ سال بعد چھوٹی سکرین پر واپسی کی ہے اور ان کے ساتھ مرکزی کردار میں کبریٰ خان اور اداکار عثمان مختار ہیں۔
ڈرامے کی ابتدائی اقساط سے یہ ایک ’لو ٹرائی اینگل‘ سٹوری معلوم ہو رہی ہے لیکن اس کے ساتھ اس ڈرامے میں ایک نفسیاتی مسئلے کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر اگر اس ڈرامے کے ردعمل کی بات کریں تو پسندیدگی کے ساتھ کچھ اعتراضات بھی کیے جا رہے ہیں۔ بعض صارفین کا کہنا ہے کہ ’یہ ڈرامہ عورت ہی عورت کی دشمن، کے بیانیے کو پروموٹ کر رہا ہے‘ تو کچھ صارفین نے اعتراض کیا کہ ہمارا ڈرامہ لو ٹرائی اینگل سے آگے نہیں نکل پا رہا۔
اس ڈرامے کی رائٹر عمیرہ احمد اس بارے میں کیا کہتی ہیں یہ جاننے کے لیے اردو نیوز نے ان سے بات چیت کی ہے۔
عمیرہ احمد نے کہا کہ ڈرامہ ’زندگی گلزار ہے‘ اور’ہم کہاں کے سچے تھے‘ یہ میری زندگی کے پہلے ناول تھے جو میں نے لکھے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہم کہاں کے سچےتھے‘ ناول کو پڑھیں تو پتا چلے گا کہ میں ’لو ٹرائی اینگل‘ کی بانی ہوں اس ناول سے متاثر ہو کر بعد میں بہت ساری اسی طرح کی کہانیاں بنیں اسی طرح سے میرے ناول ’مات‘ سے متاثر ہو کر دو بہنوں کی کہانی کا سلسلہ شروع ہوا۔ مجھے اُس وقت بھی لوگوں نے کہا کہ آپ نے یہ جو لکھا ہے اس طرح کی پہلے کہانیاں آ چکی ہیں تو میں نے ان کو بتایا کہ میں تو یہ ناول سترہ، اٹھارہ برس قبل لکھ چکی ہوں۔‘
عمیرہ احمد کے بقول 20 سال پہلے لکھے ناول کی کہانی سے یہ ڈرامہ کافی مختلف ہے اور اس میں کافی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
’میرے ناول ’زندگی گلزار ہے‘ اور ’میری ذات ذرہ بے نشان‘ پر جب ڈرامے بنے تو دیکھا گیا کہ دونوں کی کہانیاں ناول سے مختلف تھیں اور ’ہم کہاں کے سچے تھے‘ تو ناول سے بہت ہی زیادہ مختلف ہے۔‘
عمیرہ احمد کہتی ہیں کہ ’ہر کہانی میں ایک اچھی لڑکی ہوتی ہے اور ایک بری۔ اب کسی بھی کہانی میں یہ دکھانے کی کوشش نہیں کی گئی کہ اچھی لڑکی اچھی کیوں ہے اور بری لڑکی بری کیوں ہے، لیکن ’ہم کہاں کے سچے تھے‘ کی کہانی یہ بتائے گی کہ کسی بھی کریکٹر کی اچھائی اور برائی کہاں سے شروع ہوئی۔‘
کسی بھی ناول کو ڈرامائی شکل دینا کتنا مشکل ہے اس سوال کے جواب میں عمیرہ احمد نے بتایا کہ ’شروع میں ضرور مشکل لگتا ہے کیونکہ آپ کو سین کاٹنے پڑتے ہیں، ناول کا بہت سارا حصہ چھوڑنا پڑتا ہے لیکن اتنے برسوں سے اس انڈسٹری میں سکرپٹ رائٹنگ کر رہی ہوں لہذا زیادہ مشکل نہیں لگتا۔‘
اس ڈرامے کے مرکزی کرداروں کے لیے ماہرہ خان اور کبری خان کا نام ہی کیوں تجویز کیا، اس بارے میں عمیرہ احمد کہتی ہیں کہ ’جب سکرپٹ مکمل ہوتا ہے تو پروڈیوسر رائٹر سے پوچھتا ہے کہ آپ نے جو کریکٹرز لکھے ہیں اس کے لیے کون بہتر رہے گا تو میں اپنی رائے دے دیتی ہوں۔ ’ہم کہاں کے سچے تھے‘ کے لیے ماہرہ خان سے پہلے پروڈیوسر کے ذہن میں کسی اور کا خیال تھا لیکن بعد میں حالات ایسے بنے کہ مینیج نہیں ہو پا رہا تھا تو پھر میں نے ماہرہ خان اور کبریٰ خان کا نام تجویز کیا اور ان دونوں نے ہی ہاں کر دی۔‘
آج کل بعض ڈراموں میں اداکاراؤں کو ان کی عمر کے لحاظ سے کردار نہ دینے پر بھی تنقید ہوتی ہے اس بارے میں عمیرہ احمد کا کہنا تھا کہ’ کہانی گھر کے اندر ہو رہی ہو تو لڑکی کی عمر کا مسئلہ نہیں ہوتا، یونیورسٹی میں کہانی ہو رہی ہو تو یقینا عمر ایک فیکٹر ہوتا ہے جس کو دیکھنا پڑتا ہے۔ ’ہم کہاں کے سچےتھے‘ کی کہانی گھر کے اندر ہو رہی تھی اور گھر کے اندر ہی ختم ہونی تھی تو پھر عمر کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اب جو لڑکیاں اس وقت پرفارم کر رہی ہیں وہ اس عمر سے نکل چکی ہیں جس میں لڑکیاں یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہوتی ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ یہ کردار ماہرہ کیوں نہیں کر سکتی تھیں؟‘
عمیرہ احمد کے مطابق ’رائٹر کے پاس جب تک کاغذ ہوتا ہے وہ بادشاہ ہوتا ہے اور جیسے ہی وہ کام ختم کر لے اس کے بعد ڈائریکٹر بادشاہ بن جاتا ہے، میں ڈائریکٹر کی ڈومین میں گھسنا پسند نہیں کرتی ہاں اگر محسوس ہو کہ ڈائریکٹر میرے لکھے ہوئے کو ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں رہا تو میں اظہار کر دیتی ہوں۔‘
کیا عمیرہ احمد مستقبل میں بطور ڈائریکٹر اپنی قسمت آزمانے کا ارادہ رکھتی ہیں، اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے کبھی سوچا ہی نہیں، اپنے کام کو ہی بہتر کر لوں یہی بڑی بات ہے۔‘