کابل یونیورسٹی نےکہا ہے کہ یونیورسٹی کے چانسلر محمد اشرف غیرت کا نہ فیس بک اور نہ ہی ٹوئٹر پر اکاؤنٹ ہے۔
کابل یونیورسٹی کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی اخبار نیویارک ٹائمز سمیت سی این این، این پی آر اور انڈین نیوز ایجنسی اے این آئی نے خبر دی تھی کہ کابل یونیورسٹی کے نئے چانسلر نے خواتین کے یونیورسٹی آنے پر پابندی لگا دی ہے۔
ان اداروں نے طالبان کی جانب سے کابل یونیورسٹی کے لیے مقرر کیے گئے نئے چانسلر محمد اشرف غیرت کی ٹویٹ کا حوالہ دیتے کہا تھا کہ ’جب تک خواتین کو مکمل اسلامی ماحول مہیا نہیں کیا جاتا، ان کو یونیورسٹی آنے اور کام کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسلام پہلے۔‘
کابل یونیورسٹی کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’محمد اشرف غیرت کے حوالے سے فیس بک اور ٹوئٹرز کے پیجز جعلی ہیں، ان کا کوئی فیس بک اور یا سوشل میڈیا پر کوئی اکاؤنٹ نہیں۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ معلومات کے لیے کابل یونیورسٹی کی ویب سائٹ اور فیس بک پیج فولو کیا جائے۔
طالبان کے حامی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی نیویارک ٹائمز کی خبر کی تردید کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ یہ خبر جعلی ہے اور کہا تھا کہ خواتین کا عملہ اور طالبات کابل یونیورسٹی جا رہی ہیں۔
محمد جلال کے نام سے طالبان کی حامی ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا گیا تھا ’ کابل یونیورسٹی کا خواتین کا عملہ، فیکلٹی اور طالبات معمول کے مطابق یونیورسٹی جا رہی ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کو سٹوریز شائع کرنے سے قبل معلومات کی تصدیق اور حقائق دیکھ لینے چاہیے۔ کچھ افغان صحافی جو نیویارک ٹائمز کے ساتھ کام کر رہے ہیں، ان کے لیے غیر جانبدار رہنا مشکل ہے۔ یہ اصولوں کے خلاف ہے۔‘
Female staff members, faculty and students are going to Kabul university as usual.@nytimes should check the facts and verify information before publishing stories. Some Afghan journalists working with @nytimes are finding it difficult to be objective. This is unethical.
— Muhammad Jalal (@MJalal313) September 28, 2021