وزیراعظم عمران خان کے بیرون ملک دوروں میں کمی دیکھی گئی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کو خارجہ پالیسی کے میدان میں ہمیشہ سے حساس اور پیچیدہ مسائل کا سامنا رہا ہے۔ ایک مشکل خطے میں مشکل ترین تنازعات سے نبرد آزما ہونے میں خاص مہارت اور دانشمندی درکار ہوتی ہے۔
دوسری طرف خطے میں پاکستان کی پوزیشن اس کے لیے مثبت مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔ اب یہ حکومت پر ہوتا ہے کہ وہ خارجہ پالیسی کو کیسے منظم کرتی ہے۔
خارجہ پالیسی کا چہرہ اور اکثر محرک وزیر اعظم ہوتا ہے۔ پچھلے تین سال میں وزیر اعظم عمران خان کی خارجہ پالیسی پر اگر کوئی ایک لفظ سامنے آتا ہے تو وہ ہے غیر مستقل مزاجی۔ حکومت کے آغاز میں یہ اعلان سامنے آیا کہ چونکہ پچھلے حکمران بیرونی دورے کثرت سے کرتے تھے اس لیے اب دورے کم ہوں گے۔ کچھ عرصے تک خاص دورے نہیں ہوئے پھر اس کے بعد یک دم بہت دورے شروع ہوگئے۔
عمران خان صاحب نے اسلامی ممالک میں اپنا ایک خاص تشخص بنانے کا عزم کیا۔ کئی ممالک کے سربراہ پاکستان بھی آئے خصوصاً سعودی ولی عہد اور وزیراعظم اس کے بعد ترکی، ملائیشیا اور ایران کے دورے پر بھی گئے جہاں بظاہر ان کی بھرپور پزیرائی بھی ہوئی۔
ایسے اشارے بھی دیے گئے کہ گویا وزیراعظم عالم اسلام میں کوئی بڑا مفاہمتی کردار ادا کرنے والے ہیں۔ اس مفاہمتی کردار میں تو خاص پیشرفت سامنے نہیں آئی مگر دوروں میں کمی سی آئی گئی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں وسطی ایشیا میں کثیر فریقی کانفرنس کے علاوہ کوئی دورہ سامنے نہیں آیا اور نہ ہی کسی سربراہ مملکت نے پاکستان کا دورہ کیا ہے۔ اس میں بھی دو رائے نہیں کہ کورونا وبا کی وجہ سے شخصی بیٹھکیں کم سے کم ہوئی ہیں مگر رابطے کے دیگر ذرائع تو کھلے ہیں۔
ان ذرائع میں سب سے آسان اور نمایاں تو کال ہے۔ امریکی صدر کی طرف حلف سنبھالنے کے چھ مہینے بعد بھی وزیراعظم سے رابطہ نہ کرنا ایک واضح پیغام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ وہ امریکہ جو طالبان سے مذاکرات کر کے افغانستان سے نکل چکا ہے وہ پاکستان کی اعلیٰ ترین قیادت کو ایک طرح سے سرد مہری کے اشارے دے رہا ہے۔
اگرچہ وزیر خارجہ اور انٹیلی جنس چیف کی سطح پر رابطے ہوئے ہیں۔ اگلے کچھ دنوں میں امریکی نائب وزیر خارجہ کا دورہ بھی متوقع ہے۔ اگرچہ یہ بھی اس سطح کا شاید رابطہ نہیں جس کی پاکستان کو توقع ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ کے ساتھ تعلقات میں سردمہری ہماری طرف سے قصدا ہے اور کیا ایسا ہمارے مفاد میں ہے؟ ان دونوں کا جواب شاید نفی میں ہو مگر اس کے ساتھ ساتھ ہماری طرف سے کچھ جذبات اور کچھ جلد بازی پر مبنی اشارے داخلی طور پر تو حکومت کے لیے مقبولیت کا سبب بنے ہیں مگر واشنگٹن ڈی سی میں امریکی سینیٹرز کا ایک بڑا گروہ پاکستان کے بارے میں منفی اقدامات کی تجاویز دے رہا ہے۔
پاکستان کے امریکہ اور اس کے کردار پر اپنے تحفظات ہیں اور بظاہر اس میں دو رائے نہیں کہ امریکہ اپنی ہزیمت کا ایک طرح سے غصہ پاکستان کے طرف مبذول کر رہا ہے مگر اس وقت میں شاید دانش مندی یہ ہو کہ غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز اشاروں کے بجائے نپا تلا رویہ اپنایا جائے۔ ابھی طالبان کی حکومت کے بین الاقوامی مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھنے ہیں، ایسے وقت میں مغربی بلاک کے بائیں طرف جانا شاید پاکستان کے مفاد میں نہ ہو چاہے اندرون ملک حکومت کو جتنے بھی واہ واہ ملے۔
مغربی طاقتوں کا ایک نمایاں کردار فیٹف سے متعلقہ پابندیوں سے ہے۔ پاکستان بوجود کوشش اور بھر پور اقدامات کے فیٹف (ایف اے ٹی ایف) سے کلیئر نہیں ہو سکا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مناسب سے بھی زیادہ پیشرفت کے باوجود ہمیں مزید آگے کا پلان دے دیا گیا ہے۔ اسی کو نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی ٹیموں کے دوروں کی منسوخی سے ملا کر دیکھیں تو مغربی بلاک کے ساتھ سرد مہری کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہی مشکل حالات میں سفارت کاری کا امتحان ہے اور اگر ساری توجہ غصے کے اظہار پر رہی تو صورتحال میں بہتری کی گنجائش کم ہے۔
مغربی بلاک کو بیلینس کرنے کے لیے پاکستان کا مستقل مزاج اور پائیدار حلیف چین کی صورت میں موجود ہے۔ افغانستان میں تو چین اور پاکستان یقینا ایک پیج پر ہیں مگر سی پیک میں پیش رفت کو لے کر چین کی طرف سے تحفظات کے اشارے مل رہے ہیں۔ اس میں کچھ کردار دہشت گرد حملے کا رہا ہے اور کچھ منصوبوں میں سست رفتاری کا۔ حکومت کی طرف سے تو اس میں ارادے کی حد تک کوئی دو رائے نہیں نظر آئیں مگر عمل درآمد میں بہتری کے گنجائش ضرور ہے۔
وزیراعظم اور حکومت کی چونکہ زیادہ توجہ داخلی سیاست کی طرف ہوتی ہے اس لیے وہ خارجہ پالیسی میں بھی اپنا رول اس طرح پیش کرتے ہیں جس سے اندرون ملک پذیرائی ہو مگر اس سے اور کچھ نہیں تو کنفیوژن نظر آتی ہے۔ اس کنفیوژن کی ایک وجہ جلد بازی بھی ہے۔
اس سے پیشتر پہلے پاکستان نے سہ فریقی سمٹ میں شرکت کا اعلان کیا اور بعد میں اعلی ترین سطح پر شرکت بھی نہیں کی۔ اس کے بعد اس فورم پر بھی خاموشی ہے۔ وزیر اعظم کے بیرونی چینلز کو انٹرویوز نے بھی منفی اور مثبت دونوں طرح کے اثرات مرتب کیے ہیں۔ داخلی طور پر مقبولیت حاصل ہوئی اور باہر وضاحتیں دینی پڑیں۔
کیا آج حکومت کی خارجہ پالیسی وہاں نہیں جہاں وہ چاہتے تھے تو اس کے وجہ داخلی اہداف کے لیے خارجہ پالیسی کا استعمال ہے۔ امید ہے اس حکمت عملی پر نظر ثانی ہوگی تاکہ بیرونی دنیا تک ہمارا ایک مستقل مزاج اور متوازن پالیسی پیغام جائے۔