Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم کیس: ملزم ظاہر جعفر کی والدہ کی ضمانت منظور، والد کی مسترد

سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت آدم جی کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے جبکہ ملزم کے والد کی درخواست ضمانت مسترد کر دی ہے۔
پیر کو سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے درخواست ضمانت کی سماعت کرتے ہوئے عصمت آدمی جی کی خاتون ہونے کی بنیاد پر درخواست ضمانت منظور کی جبکہ ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر کو ضمانت پر رہا کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا۔ 
سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران ظاہر جعفر کی والدہ کی ضمانت منظور کرتے ہوئے 10 لاکھ کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی۔ 
عدالت نے درخواست گزار کی جانب سے آٹھ ہفتوں میں ٹرائل کرنے کا حکم بھی کالعدم قرار دینے کی درخواست کو خارج کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو آٹھ ہفتوں میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے شفاف ٹرائل کا حق دینے اور ملزمان کے اعتراضات دور کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ 
عدالت نے حکم سناتے ہوئے کہا کہ ملزم کی والدہ عصمت آدمی جی کا پولیس کو اطلاع نہ دینے کا کردار ثانوی ہے جبکہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ کراچی میں موجود تھیں۔
دوران سماعت دلائل دیتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ’ظاہر جعفر کی والد کے ساتھ کال ریکارڈ کا ڈیٹا تو موجود ہے لیکن اس کا ٹرانسکرپٹ اور دیگر ریکارڈ موجود نہیں کہ بات کیا ہو رہی ہے۔‘

شاہ خاور نے دلائل دیے کہ جب گھر میں ایک لڑکی چھلانگ لگا کر بھاگ رہی ہے تو کیا چوکیدار یہ معاملہ گھر کی مالکن کو نہیں بتائیں گے کہ کیا ہو رہا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ملزمان کے وکیل خواجہ حارث نے یہ بھی نقطہ اٹھایا کہ 'ملزم ظاہر جعفر کی ذہنی حالت کے حوالے سے کوئی ٹیسٹ نہیں کیا گیا یہ پہلو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔'
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا کوئی منشیات والا معاملہ سامنے آیا ہے؟ 
جس پر شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور نے کہا کہ 'ملزم کے ٹیسٹ کیے گئے تھے جس میں منشیات کے حوالے سے کوئی چیز سامنے نہیں آئی۔' 
اس دوران جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ 'اگر ذہنی حالت کا معاملہ ہو تو اس سے پہلے ملزم اعتراف جرم کرے گا۔' 
وکیل خواجہ حارث نے ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزم کے والد ذاکر جعفر 21 جولائی کو خود پولیس سٹیشن گئے اور اسلحے کا لائسنس حوالے کیا جبکہ کوئی شواہد مٹانے کی کوشش نہیں کی۔
اس پر شاہ خاور نے کہا کہ ذاکر جعفر 21 جولائی کو کراچی سے اسلام آباد آئے جبکہ 22 جولائی کو پولیس سٹیشن گئے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ 'والدین نے تھیراپی ورکرز کو کالز کی اور گھر پہنچنے کا کہا اس کا مطلب ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں تھا اور والدین اس بات سے واقف تھے۔'
خواجہ حارث نے ایک بار پھر اعتراض اٹھایا کہ پراسیکیوشن کی جانب سے ہمارے خلاف استعمال ہونے والے دستاویزات اور دیگر شواہد سے ہمیں آگاہ نہیں کیا گیا جو کہ ملزم کا حق ہے۔ اسے اپنے دفاع کے لیے شواہد کا ریکارڈ دیا جائے۔ 

پیر کو سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے درخواست ضمانت کی سماعت کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جسٹس قاضی امین کے استفسار پر ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’ابھی چالان نامکمل ہے اور جو ضمنی چالان کے علاوہ ریکارڈ ہے وہ سب فراہم کر دیا گیا ہے۔'  
دوران سماعت خواجہ حارث نے نقطہ اٹھایا کہ والد کے علاوہ ملزم ظاہر جعفر نے وقوعہ کے دوران سات مزید لوگوں کو بھی کالز کی تھیں لیکن ان کو تفتیش کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ 
خواجہ حارث کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے مقتولہ کے وکیل شاہ خاور سے عصمت آدم جی کے کیس میں ملوث ہونے سے متعلق دلائل طلب کیے۔
شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ '20 جولائی کی رات کو نور مقدم نے چھ بج کر 35 منٹ پر ٹیرس سے چھلانگ لگا کر بھاگنے کی کوشش کی جس پر چوکیدار نے انہیں روکا اور ملزم ظاہر جعفر انہیں گھسیٹتے ہوئے اندر لے گئے۔'
انہوں نے کہا کہ 'یہ تمام ریکارڈ سی سی ٹی پر موجود ہے، جس کے بعد چھ بج کر 41 منٹ پر چوکیدار اور ملزم کی والدہ کے درمیان بھی ٹیلی فون رابطہ ہوا۔'
شاہ خاور نے دلائل دیے کہ جب گھر میں ایک لڑکی چھلانگ لگا کر بھاگ رہی ہے تو کیا چوکیدار یہ معاملہ گھر کی مالکن کو نہیں بتائیں گے کہ کیا ہو رہا ہے۔
'ان کے علم میں ہونے کے باوجود انہوں نے پولیس سے کسی بھی قسم کا رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ تھیراپی ورکس کے مالک طاہر سے رابطہ کیا گیا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ معاملے کا علم ہونے کے باوجود چھپایا گیا۔'
عدالت نے ملزم کی والدہ عصمت آدمی جی کو خاتون ہونے کی بنا پر ان کا وقوعے میں کردار ثانوی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ اپنے شوہر کی مدد کر رہی ہوں گی لیکن ان کا کردار ثانوی ہے جس پر انہیں ضمانت پر رہا کیا جاتا ہے۔'

عدالت نے ملزم کی والدہ عصمت آدمی جی کو خاتون ہونے کی بنا پر ان کا وقوعے میں کردار ثانوی قرار دیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

خیال رہے کہ گذشتہ پیر کو سپریم کورٹ میں سابق سفیر شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کے قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ مقدمات میں شفاف ٹرائل کا حق لازمی دیا جائے تاہم مقدمہ نمٹانے میں تاخیر سے اضطراب بڑھتا ہے۔
مرکزی ملزم کے والدین نے سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔
سپریم کورٹ میں ملزمان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ تاحال فرانزک رپورٹس موصول نہیں ہوئیں اور دو ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کے حکم سے شفاف ٹرائل کا حق متاثر ہو سکتا ہے۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر استغاثہ سے ذاکر جعفر اور عصمت ذاکر کی حد تک شواہد پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 18 اکتوبر تک ملتوی کردی تھی۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزم کے والدین کی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو دو ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

شیئر: