جمع ہونے کی رعایت سے ہجوم اور بھیڑ کو بھی ’حشر‘ کہتے ہیں۔ (فوٹو: شٹر سٹاک)
برپا ہے حشر و نشر جو رفتارِ یار سے
یہ کون سا چلن ہے قیامت اگر نہیں
شعر لکھنؤ کے کلاسیکی شاعر آغا حجو شرف کا ہے، جس میں قیامت کی نسبت سے ’حشر و نشر‘ کو خوب صورتی سے باندھا گیا۔ پھر یہ بھی شاعر کا کمال ہے کہ ڈیڑھ سو برس قبل کہا گیا شعر زبان و بیان کے اعتبار سے آج بھی تر و تازہ ہے۔
لفظ ’حشر‘ کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانے سے مجبور کر کے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں۔ چوں کہ بروز قیامت انسانوں کو ان کی قبروں سے نکال کر اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا اس لیے قیامت کو ’یومِ حشر‘ بھی کہتے ہیں۔
جیسے ذبح سے ’مذبحہ‘ یعنی جانور ذبح کرنے کی جگہ ہے، ایسے ہی ’حشر‘ سے ’محشر‘ ہے، جس کے معنی جمع ہونے یا اکٹھا کرنے کی جگہ کے ہیں۔
قیامت میں کل انسان ایک جگہ اکٹھے کیے جائیں گے اس لیے ’حشر‘ کے معنی میں اکٹھا یا جمع کرنا بھی داخل ہے۔ پھر اس جمع ہونے کی رعایت سے ہجوم اور بھیڑ کو بھی ’حشر‘ کہتے ہیں۔
چوں کہ ’حشر‘ اجتماعی معاملے سے متعلق ہے اس لیے عربی میں ’حشر‘ کا لفظ جماعت کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس کا اطلاق فرد واحد پر نہیں ہوتا۔ وہ الگ بات ہے کہ اردو میں اکیلے بندے کا بھی ’حشر کرنے‘ کی گنجائش موجود ہے۔
چوں کہ قیامت میں نفسا نفسی کا عالم ہو گا اس لیے اردو میں ’حشر‘ کے معنی میں ’یوم حساب‘ کے علاوہ اٹھانا، برپا کرنا اور ہلاک کرنا بھی شامل ہیں، پھر ان معنی ہی کی رعایت سے اردو میں آفت ڈھانا اور کُہرام مچانا، ’حشر اٹھانا‘ کہلاتا ہے۔
اس سے قبل کہ آگے بڑھیں اور ’نشر‘ کی بات کریں ’حشر‘ کی رعایت سے ایک شعر ملاحظہ کریں:
حسابِ آب و دانہ حشر میں ہو گا تو کہہ دوں گا
پیا ہے عمر بھر خونِ جگر، غم میں نے کھایا ہے
یہاں تک پہنچ کر آپ سوال کر سکتے ہیں کہ اس ’حشر‘ کا ’حشرات‘ سے کیا تعلق ہے، جو عام طور پر ’حشرات الارض‘ کی ترکیب کے ساتھ بھی برتا جاتا ہے؟
عرض ہے کہ ’حشر‘ کا ’حشرات الارض‘ سے تعلق سمجھنے سے قبل یہ سمجھ لیں کہ ’حشرات‘ جمع ہے، جس کی واحد ’حشرہ‘ ہے۔
عام خیال کے مطابق ’حشرات‘ کی تعریف میں فقط وہ ’کیڑے مکوڑے‘ داخل ہیں جو زمین میں بِل بنا کر رہتے ہیں۔ یہ خیال درست نہیں۔ اس لیے کہ ’حشرات الارض‘ کی تعریف میں کیڑے مکوڑوں کے علاوہ زمین پر چلنے پھرنے والے چھوٹے جانور مثلاً سانپ، نیولا، گوہ، گرگٹ اور چوہا وغیرہ بھی داخل ہیں اور ارض یعنی زمین ہی کی نسبت سے حشرات الارض کہلاتے ہیں۔
جہاں تک بات ہے ان ’حشرات‘ کی ’حشر‘ سے تعلق کی، تو گمان ہے کہ اکثر مواقع پر، خاص کر موسم برسات میں کیڑے مکوڑے اجتماعی طور پر بلوں سے نکل آتے ہیں اور اس رعایت سے ’حشرات‘ کہلاتے ہیں۔
آپ نے ’حشر‘ کا حال پڑھا اب ’نشر‘ کا بیان سنیں۔ ’نشر‘ کے لفظی معنی ’کسی چیز کو پھیلانے‘ کے ہیں۔ یہ لفظ کپڑا اور صحیفہ پھیلانے، بارش اور نعمت کے عام کرنے اور کسی بات کو مشہور کر دینے پر بولا جاتا ہے۔
اسی نشر سے ’نشریات‘ ہے، وزارتِ اطلاعات کے ساتھ ’نشریات‘ کا لاحقہ اسی لیے ہوتا ہے کہ یہ وزارت حکومتی موقِف پھیلاتی ہے۔ جب کہ ٹی وی ٹرانسمیشن کو بھی اسی لیے نشریات کہتے ہیں کہ اس کے ذریعے بات دور دور تک پھیل جاتی ہے۔اس بات کو مرتضیٰ برلاس کے شعر سے بھی سمجھا جاسکتا ہے:
نشر ہوتی رہیں ان کی بس خوبیاں
جملے تنقید کے سب حذف ہو گئے
یوں تو نشر کرنے والا ناشر کہلاتا ہے، تاہم اردو میں ’ناشر‘ کا استعمال ورقی ذرائع ابلاغ (پرنٹ میڈیا) تک محدود ہے۔ اسی نشر سے لفظ ’نُشوُر‘ بھی ہے، جو مر کر جی اٹھنے کو کہتے ہیں، غور کریں تو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ قیامت کو ’یَوم النُشوُر‘ کیوں کہتے ہیں۔
اسی سلسلے کا ایک لفظ ’منشور‘ بھی ہے، جس کے معنی ’شائع شدہ اور پھیلا ہوا‘ کے ہیں۔ چوں کہ مختلف سیاسی جماعتیں اور انجمنیں اپنے مقاصد اور دستور شائع کرتی اور پھیلاتی ہیں لہٰذا اس پھیلانے یعنی ’نشر‘ کرنے کی نسبت سے اس دستور کو ’منشور‘ بھی کہا جاتا ہے۔
آپ نے حشر و نشر کے الگ الگ معنی ملاحظہ کیے، اب اسے ’حشر نشر‘ کی ترکیب میں دیکھیں تو اس کے معنی ’سمیٹنا اور بکھیرنا‘ قرار پاتے ہیں، اب ان معنی کو ذہن میں رکھیں اور عوامی محاورے ’حشر نشر کر دینا‘ پر غور کریں تو اس دھمکی کو خاصا دلچسپ پائیں گے۔
ضروری ہے کہ روزِ آخرت کے حوالے سے ہونے والے اس گفتگو میں ’قیامت‘ کا ذکر بھی ہوجائے۔ قیامت کا لفظ ’قائم‘ یعنی کھڑے ہونے سے ہے، اور اس کا مادہ ’ق، و۔ م‘ ہے۔ قیامت والے دن اول تمام انسان اپنی قبروں سے اُٹھیں گے اور پھر اللہ رب العزت کے سامنے کھڑے ہوں گے، یوں اس کھڑے ہونے کی نسبت سے اس دن کو قیامت یا یوم القیامۃ بھی کہا جاتا ہے۔ اب اس قیامت کی رعایت سے میرزا غالب کا خوب صورت شعر ملاحظہ کریں: