نور مقدم کیس: ملزم ظاہر جعفر کا نازیبا الفاظ کا استعمال، پولیس سے ہاتھا پائی
نور مقدم کیس: ملزم ظاہر جعفر کا نازیبا الفاظ کا استعمال، پولیس سے ہاتھا پائی
بدھ 3 نومبر 2021 11:50
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
اسلام آباد کی ضلعی عدالت کے ایڈشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں استغاثہ کے گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے (فوٹو: سوشل میڈیا)
نور مقدم قتل کیس کی سماعت کے دوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی جانب سے نازیبا الفاظ کا استعمال کیا گیا جس پر جج عطا ربانی نے ملزم کو کمرہ عدالت سے جانے کی ہدایت کی، اس دوران ملزم اور پولیس اہلکاروں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی۔
بدھ کے روز سماعت کے دوران اسلام آباد کی ضلعی عدالت کے ایڈشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں استغاثہ کے گواہان کے بیانات قلمبند کیے جارہے تھے۔ اس دوران پولیس مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو کمرہ عدالت میں لے کر آئی تو ظاہر جعفر کمرہ عدالت میں حمزہ نامی شخص کو پکارتا رہا۔‘
'حمزہ تم کہاں ہو، میرا سب کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے، مجھے بات کرنے کا موقع دیا جائے۔‘
ملزم ظاہر جعفر نے کہا کہ ’میرا اس کیس میں سب کچھ داؤ پر لگا ہوا اور مجھے ایسے یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے، اس طرح اگر میرے خلاف فیصلہ آتا ہے تو یہ یرغمال ریاست کی نشانی ہوگی۔‘
جج عطا ربانی نے پولیس اہلکاروں کو ملزم ظاہر جعفر کو کمرہ عدالت سے باہر لے کر جانے کی ہدایت کی، جس پر مرکزی ملزم کے وکیل نے ظاہر جعفر سے ایک کونے میں بات کی اور خاموش رہنے کا کہا جس پر وہ کونے میں کھڑے ہو گئے۔
گواہان کے بیانات کی قلمبندی کے دوران مرکزی ملزم انگریزی میں بہ آواز بلند انگریزی میں نازیبا الفاظ کا استعمال کرتا رہا۔
مرکزی ملزم ظاہر جعفر کا کہنا تھا کہ ’اس کارروائی کو اس لیے طول دیا جا رہا ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی اختیارات ہی نہیں ہیں۔‘
ملزم نے یہ بھی کہا کہ 'میں نے اپنی زندگی میں اتنے نااہل افراد نہیں دیکھے۔ یہ کارروائی جعلی ہے، میں آپ لوگوں کو موقع دے رہا ہوں کہ مجھے پھانسی پر لٹکایا جائے اس کے باوجود اس کیس کو لٹکایا جا رہا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب کٹھ پتلیاں ہیں۔‘
ملزم کی جانب سے کمرہ عدالت میں وقفے وقفے سے تقریبا آدھے گھنٹے تک نازیبا الفاظ کا استعمال ہوتا رہا جبکہ جج عطا ربانی گواہوں کے بیانات قلمبند کرواتے رہے۔
ملزم کے خاموش نہ ہونے پر جج نے پولیس کو ملزم کو باہر لے جانے کی ہدایت کی اور جب پولیس اہلکار آگے بڑھے تو ملزم نے ان کے ساتھ ہاتھا پائی شروع کر دی، اہلکار ملزم کو اٹھا کر بخشی خانے لے گئے۔
سماعت کے دوران استغاثہ کے چار گواہان کے بیانات قلمبند کیے جا رہے ہیں۔
ملزم کی جانب سے شور شرابا بند نہ ہونے پر عدالت نے مرکزی ملزم کی والدہ عصمت آدم جی کو کٹہرے میں بلا لیا اور انہیں کہا گیا کہ وہ اپنے بیٹے کو سمجھائیں۔
جس پر ملزمہ کے وکیل اسد جمال کا کہنا تھا کہ ’ہم اس کا علاج کر لیتے ہیں۔‘
جج نے کہا کہ ’آرام سے سمجھانا ہے۔‘
ساتھ یہ ریمارکس بھی دیے کہ ’میں ملزم کو توہین عدالت کا نوٹس نہیں دوں گا، جیل ٹرائل شروع کر دوں گا۔‘