سرکاری ملازم عورت کے مرنے پر خاوند کو نوکری نہ دینا امتیازی سلوک ہے: لاہور ہائی کورٹ
سرکاری ملازم عورت کے مرنے پر خاوند کو نوکری نہ دینا امتیازی سلوک ہے: لاہور ہائی کورٹ
جمعہ 5 نومبر 2021 18:38
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
لاہور ہائی کورٹ نے حکم جاری کیا کہ محمد صدیق کو ان کی بیوی کی جگہ ملازمت دی جائے۔ (فائل فوٹو)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ہائی کورٹ نے سرکاری ملازم بیوی کے مرنے کے سات سال بعد شوہر کو ان کی جگہ نوکری دینے کا حکم جاری کیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ان رولز کو بھی تبدیل کرنے کی ہدایت کی ہے جو صرف خاوند کی موت کے بعد بیوہ کو نوکری دینے کی اجازت دیتے ہیں جبکہ بیوی کی وفات پر شوہر کو نوکری دینے سے متعلق خاموش ہیں۔
ملتان کے رہائشی محمد صدیق نے 2014 میں ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ ان کی بیوی محکمہ تعلیم میں جونئیر کلرک تھیں اور ان کا انتقال ہو گیا جس کے بعد انہوں نے محکمہ تعلیم کو درخواست دی کہ انہیں گھر کا خرچہ چلانے میں مشکل ہو رہی ہے اس لیے بیوی کی جگہ نوکری دی جائے۔
تاہم محکمہ تعلیم نے یہ کہہ کر درخواست رد کر دی کہ بیوی کی موت کی صورت میں قانون شوہر کو نوکری دینے کی اجازت نہیں دیتا۔
محمد صدیق نے 1974 سروسز ایکٹ کے ان رولز کو ہی عدالت میں چیلنج کر دیا جن میں خاوند کو نوکری دینے سے متعلق کوئی ذکر نہیں۔
عدالت کے 33 صفحات پر مبنی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے جب پنجاب حکومت نے اپنا جواب داخل کروایا تو وہ انتہائی مضحکہ خیز اور بیوقوفانہ تھا۔
پنجاب حکومت نے اس مقدمے میں موقف اختیار کیا کہ’ سروس رولز 1974 کی شق 17 اے میں صرف بیوہ کو نوکری دینے کا ذکر ہے۔‘
مزید موقف یہ اختیار کیا گیا کہ ’مرد کمانے اور گھر کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہے۔ عورت کو قانون میں اس لیے تحفظ دیا گیا ہے کہ عورت کما نہیں سکتی اور کمزور ہے۔ اس لیے اگر سرکاری نوکری پیشہ خاوند نوکری کے دوران فوت ہو جائے تو بیوہ کو تحفظ کے طور پر نوکری دی جاتی ہے۔ جبکہ سرکاری نوکری پیشہ عورت کے مرنے پر خاوند اس تحفظ کا اہل نہیں۔‘
ہائی کورٹ کے جج جسٹس شان گل نے پنجاب حکومت کے دلائل کو فرسودہ قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ’سرکاری وکلا کا یہ جواب کم علمی پر مبنی ہے۔ یہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ عورت مرد سے کم تر ہے۔ شاید ان کو یہ نہیں پتا کہ اس ملک کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو بھی رہ چکی ہیں اور ملالہ یوسف زئی کا تعلق بھی پاکستان سے ہے۔ اکیسویں صدی میں وقت بدل چکا ہے۔ عورت اور مرد کے حقوق برابر ہیں اور آئین کا آرٹیکل 25 برابری کی ضمانت دیتا ہے۔‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ مرنے والی عورت کے خاوند کو نوکری نہ دینا خود مرنے والی خاتون کے ساتھ امتیازی سلوک ہے۔
’مرد فوت ہوا تو اس کے خاندان کو تحفظ تو دیا جائے لیکن عورت مر جائے تو اس کے خاندان اس فائدے سے محروم رہیں۔ یہ ایک اور طرح کی صنفی تفریق ہے۔‘
اپنے فیصلے میں عدالت نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ جب 1974 میں یہ رولز بنائے گئے جن کے الفاظ میں صرف بیوہ کو نوکری دینے کا ذکر ہے۔ اس وقت شاید پاکستان میں عورتوں کے پڑھنے کی شرح کم تھی لیکن 1975 سے 1995 تک کی ایشین ڈویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق عورتوں نے تعلیم کے مقابلے میں مردوں سے زیادہ ترقی کی ہے۔
عدالت نے آخر میں حکم جاری کیا ہے کہ محمد صدیق کو ان کی بیوی کی جگہ ملازمت دی جائے کیونکہ ریاست اس کی پابند ہے اور 1974 کے ان سروس رولز میں ترمیم کر کے ان میں صنفی امتیاز کے تاثر کو بھی ختم کیا جائے۔