آڈیو ٹیپ ’جن کے کیسز سے متعلق ہے اُن کو عدالت آنے میں دلچسپی نہیں‘
آڈیو ٹیپ ’جن کے کیسز سے متعلق ہے اُن کو عدالت آنے میں دلچسپی نہیں‘
پیر 29 نومبر 2021 9:50
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں سابق چیف جسٹس کی آڈیو کی تحقیقات کرانے کی استدعا کی گئی ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو ٹیپ کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دینے کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اٹارنی جنرل سے معاونت طلب کی ہے۔
سندھ ہائیکورٹ بار کے صدر صلاح الدین احمد اور جوڈیشل کمیشن کے ممبر سید حیدر امام رضوی کی دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ ’مبینہ آڈیو ٹیپ زیر التوا اپیلوں سے متعلق ہے، جن کے کیسز سے متعلق ٹیپ ہے انہوں نے عدالت آنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔‘
پیر کو درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ مختلف سیاسی قوتیں مختلف بیانیے بناتی ہیں مگر عدالت نہیں آتیں، جب وہ عدالت نہیں آتے تو کورٹ کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ نیت کیا ہے۔‘
عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیاگیا ہےکہ ریٹائرڈ چیف جسٹس ثاقب نثار آڈیو ٹیپ نے عدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچایا،عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کے لیے اس بات کا تعین ضروری ہے کہ ثاقب نثار کی آڈیو اصلی ہے یا جعلی۔
درخواست گزار کے مطابق مبینہ آڈیو ٹیپ سے تاثر ملتا ہے کہ عدلیہ بیرونی قوتوں کے پریشر میں ہے۔عدلیہ کو اپنے نام کے تحفظ کے لیے آزاد خودمختار کمیشن تشکیل دینا چاہیے،آئینی عدالت ہونے کے ناطے عوام کا آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ پر اعتماد بحال کرنا ضروری ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ اچھی شہرت کے حامل ریٹائرڈ جج، وکیل ،صحافی، سول سوسائٹی کے افراد پر مشتمل آزاد خود مختار کمیشن تشکیل دیا جائے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے سوال کیاکہ یہ بتا دیں کہ یہ پٹیشن قابل سماعت کیسے ہے؟ کس کے خلاف رٹ دائر کی گئی؟ جوڈیشری کو بڑے چیلنجر کا سامنا کرنا پڑا، عدلیہ کی آزادی کے لیے بارز نے کردار ادا کیا،ہم ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں کہ جہاں سوشل میڈیا کسی ریگولیشن کے بغیر ہے۔
درخواست گزار نے کہاکہ یہی بات تکلیف دہ ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ چیز وائرل ہوئی اور اس پر ڈسکشن بھی ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ روز کچھ نہ کچھ چل رہا ہوتا ہے، آپ کس کس بات کی انکوائری کرائیں گے؟، عدالت نے صرف قانون کے مطابق حقائق کو دیکھنا ہے، جوڈیشل ایکٹوزم میں نہیں جانا،عدالت نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ کوئی فلڈ گیٹ نہ کھل جائے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئین و قانون کی حکمرانی کے لیے عدالت آپ کا احترام کرتی ہے، مبینہ آڈیو ٹیپ ایک زیر التوا اپیلوں والے کیس سے متعلق ہے، جن کے کیسز سے متعلق ٹیپ ہے انہوں نے عدالت آنے میں دلچسپی نہیں دکھائی، مختلف سیاسی قوتیں مختلف بیانیے بناتی ہیں مگر عدالت نہیں آتیں، جب وہ عدالت نہیں آتے تو کورٹ کو یہ بھی دیکھنا ہے نیت کیا ہے؟
عدالت نے سوال اٹھائے کہ آڈیو ٹیپ کس نے ریلیز کی اور کسے ریلیز کی؟ کیا ہم ان کے ہاتھ میں کھیلیں جنہوں نے یہ کیا؟
صلاح الدین احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ جو اصل متاثرہ فریق ہیں وہ سامنے نہیں آتے یہی مسئلہ ہے۔
چیف جسٹس نے عدالت میں کہا کہ ’میرے متعلق کہا جاتا ہے کہ کوئی فلیٹ لے لیا، کیا اس کی انکوائری کرنے بیٹھ جائیں گے؟‘
عدالت نے درخواست قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 8 دسمبر تک ملتوی کر دی۔