Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیالکوٹ میں سری لنکن شہری ہجوم کے ہاتھوں قتل، ’مرکزی ملزم‘ سمیت 100 گرفتار

شہری انتظامیہ کے اہلکار نے بتایا کہ ’ہلاک ہونے والے فیکٹری کے غیر ملکی مینیجر کا تعلق سری لنکا سے تھا۔‘ فوٹو: سکرین گریب
سیالکوٹ میں حکام کے مطابق وزیرآباد روڈ پر ایک نجی فیکٹری کے ورکرز نے توہین مذہب کے الزام میں ایک فیکٹری کے غیر مسلم غیر ملکی مینیجر پرانتھا کمارا کو تشدد کرکے قتل کیا اور آگ لگا دی۔
دوسری جانب پنجاب پولیس نے واقعے میں ملوث مرکزی ملزم سمیت 100 سے زائد افراد کو حراست میں لیا ہے۔
جمعے کو سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی فوٹیج میں ایک شخص کی جلتی ہوئی نعش کو دیکھا جاسکتا ہے جس کے اردگرد بڑی تعداد میں لوگ نظر آرہے ہیں۔
شہری انتظامیہ کے ایک افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’غیر ملکی مینیجر کو توہین مذہب کا الزام لگا کر قتل کیا گیا اور پھر ان کی نعش کو آگ لگادی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہلاک ہونے والے فیکٹری کے غیر ملکی مینیجر کا تعلق سری لنکا سے تھا۔‘
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’سیالکوٹ میں مشتعل گروہ کا ایک کارخانے پر گھناؤنا حملہ اور سری لنکن منیجر کا زندہ جلایا جانا پاکستان کے لیے ایک شرمناک دن ہے ۔میں خود تحقیقات کی نگرانی کر رہا ہوں اور دوٹوک انداز میں واضح کر دوں کہ ذمہ داروں کو کڑی سزائیں دی جائیں گی۔ گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔‘
دوسری جانب پنجاب پولیس نے جمعے کی رات کو کہا ہے کہ سیالکوٹ واقعہ میں پولیس نے تشدد کرنے اور اشتعال انگیزی میں ملوث ملزمان میں سے ایک مرکزی ملزم فرحان ادریس کو گرفتار کر لیا ہے۔
پولیس کے ٹوئٹر ہینڈل پر جاری بیان کے مطابق 100 سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ’آئی جی پنجاب سارے معاملے کی خود نگرانی کر رہے ہیں باقی ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔‘
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے سیالکوٹ کی فیکٹری میں پیش آنے والے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
ایک بیان میں عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ واقعے کی ہر پہلو سے تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کی جائے۔ ’قانون ہاتھ میں لینے والے عناصر کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی۔‘
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ قانون شکن عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کرے کی جائے گی۔ ‘
یہ واقعہ سیالکوٹ کے آگوکی تھانے کی حدود میں پیش آیا۔ آگوکی تھانے کے اہلکار اعجاز نے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ واقعہ فیکٹری کے اندر پیش آیا۔
’یہ واقعہ گستاخی کا بتایا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ انہوں نے فیکٹری میں لگے کسی بینر کی بے حرمتی کی تھی۔‘

وزیراعظم کے معاون خصوصی طاہر اشرفی نے واقعے کو ’بربریت‘ کی مثال قرار دیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ہلاک ہونے والے شخص کا تعلق سری لنکا سے تھا، تاہم انہوں نے کی شناخت بتانے سے انکار کر دیا۔ 

سیالکوٹ واقعہ ’بربریت‘ کی ایک مثال

قبل ازیں واقعے کے بعد پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور نے لاہور میں زیراعظم کے نمائندہ خصوصی امور مشرق وسطیٰ طاہر محمود اشرفی اور آئی جی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سیالکوٹ واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اگر کہیں پولیس کی جانب سے غفلت ثابت ہوئی تو کارروائی کی جائے گی۔
 حسان قادر کا مزید کہنا تھا کہ ’50 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’گیارہ بج کے 25 منٹ پر ون فائیو پر کال ہوئی، جس پر پولیس رسپانس کو جانچا جا رہا ہے۔‘
حسان خاور کا یہ بھی کہنا تھا کہ تمام فیکٹس کو دیکھا جا رہا ہے اور سی سی ٹی وی فوٹیج سے حملہ کرنے والوں کی شناخت کی جا رہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی نے واقعے کو ’بربریت‘ کی مثال قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی مجرم بھی ہے تو پاکستان میں توہین ناموس رسالت اور توہین مذہب اور مقدسات کا قانون بھی موجود ہے، اس کو عدالت میں، قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے، نہ کہ اسے پکڑ کر مار دیا جائے، اس کی لاش کو جلا دیا جائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ’ یہ تو بربریت ہے ، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔‘
پاکستان کی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہجوم کی جانب سے تشدد کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں کیونکہ ریاست کے پاس تمام جرائم سے نمٹنے کے لیے قوانین موجود ہیں۔‘

شیئر: