Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پطرس بخاری کی یاد میں: ’لاہور کے کاٹے کا علاج نہیں‘

آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ چھوڑنے کے بعد گورنمنٹ کالج کے پرنسپل بنے۔ فائل فوٹو
لاہور کے کاٹے کا علاج نہیں۔ لاہور ہم سب کا معشوق ہے اور مرتے دم تک معشوق رہے گا۔ ہماری جوانی اس سے تھی اور کبھی کبھی شباب کے غرّے میں یہ بھی گمان ہوتا تھا کہ اس کی جوانی ہم سے ہے۔ پطرس بخاری
پطرس بخاری کی لاہور سے محبت کے طولانی قصے کا آغاز، اس شہر سے اُن کے وصال نہیں فراق کے زمانے سے کرتے ہیں۔ 1950ء میں گورنمنٹ کالج کی پرنسپلی چھوڑ کر وہ پاکستان کے نمائندے کی حیثیت سے اقوام متحدہ میں چلے گئے۔ امریکا میں 5دسمبر 1958 کو اپنی وفات تک وہ اپنے محبوب شہر کو رہ رہ کر یاد کرتے رہے؛ اِس کے ہجر میں تڑپتے رہے، دوستوں کی صحبت کو ترستے رہے۔ امریکا سے کبھی لاہور کا پھیرا لگتا تو سوکھے دھانوں پر پانی پڑ جاتا۔ ایسے ہی ایک دورے کے بعد یارِعزیز صوفی غلام مصطفی تبسم کو لکھا:
’لاہور کے چند رنگین ایام ایک ایسا خواب ہے جو محو ہونے میں نہیں آتا۔ الحمداللہ کہ یہ دن نصیب ہوئے اور دوستوں کو بولتے ہنستے دیکھ لیا۔‘
ہمدمِ دیرینہ عبدالرحمٰن چغتائی سے خط میں کہا:
’لاہور کا قیام ازحد مختصر تھا۔ جہاں برسوں تک شباب رنگین کیا ہواور بڑھاپے کو بھی شباب بنایا ہو وہاں دل کی تشنگی ہفتے عشرے میں کیا بجھتی ۔ لیکن قسمت پر نازاں ہوا کہ احباب کی صحبت میں مسرت بلکہ نشے کی چند گھڑیاں تو گزارلیں۔آپ سے سالہا سال دل کا سودا رہا ہے۔ آپ کی محبت اور اخلاص برسوں سے دل کا جزو تھیں، اور ہیں۔للہ الحمد کہ آپ سے مل لیا اور آپ کی محبت اور آپ کے کرم سے دوبارہ فیض یاب ہوا۔‘

یہ تصویر ’نقوش‘ کے پطرس نمبر میں شائع ہوئی۔

یہ تو لاہور آنے کی رہی، یہاں آنے کے خیال سے ہی ان کی طبیعت ہری ہوجاتی ۔ لاہور کے خیال سے ان پر جو کیفیت طاری ہوتی اسے غالب کے اس مصرعے کے ذریعے بیان کیا جا سکتا ہے:
ترے خیال سے روح اہتزاز کرتی ہے
عبدالمجید سالک سے خط میں کہا: ’لاہور واپس آنے کے خیال سے زندگی میں ابھی سے کتنی تازگی پیدا ہوگئی ہے۔‘ انھی کے نام ایک اور خط میں حسرت موہانی کا یہ شعر نقل کیا:
 غربت کی صبح میں بھی نہیں ہے وہ روشنی
جو روشنی کہ شامِ سوادِ وطن میں تھی
اور لفظ شام اور سواد کی جو تشریح کی اس کے مطابق، شام وہ ہے جو سالک کے ہاں کٹتی تھی اور سواد پنجابی کا ہے۔
’لاہور آنے کے خیال سے بجز مسرت کے اطمینان کے کوئی جذبہ دل میں نہیں اٹھتا‘ (بنام امتیاز علی تاج)
شہر کی فضا، تاثیر اور مہکار بھی پطرس کے دامنِ دل کو کھینچتی تھی لیکن سب سے بڑھ کر وہ صحبتِ احباب کے لیے ترستے اور تڑپتے تھے: ’اے کاش کوئی ازسرِنو اِن اوراقِ پریشاں کا شیرازہ باندھ دے۔‘
’دوستوں کی صحبت سے پھر روح ِ دوراں کو سیراب کرنے کے لیے بے قرار ہوں اور دن گن رہا ہوں۔‘ (بنام سالک)
دوستی وہ متاعِ بے بہا تھی جس سے بڑھ کر ان کے نزدیک دنیا میں کوئی نعمت نہیں تھی۔


پطرس بخاری گورنمنٹ کالج، لاہور کے پرنسپل رہے۔ آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹرجنرل بنے۔ اقوام متحدہ میں اونچے عہدوں پر کام کیا۔ ملازمت کے اعتبار سے ایسی رفعتیں برصغیر میں کم ہی لوگوں کے حصے میں آئی ہوں گی لیکن لاہور سے زندہ رشتہ قائم رکھنے کی راہ میں ان کی افسری کبھی رکاوٹ نہ بنی۔ عاشق حسین بٹالوی اپنی کتاب ’چند یادیں چند تاثرات‘ میں لکھتے ہیں:
’جب سرکاری دورے پر لاہور آتے اور بڑے حاکمانہ ٹھاٹھ سے فلیٹی ہوٹل میں ٹھہرتے تو مجھ سے کہتے، ’عاشق صاحب جی چاہتا ہے کہ رات کو چھپ کر چونے منڈی چلیں اور خلیفے کی دکان کے کباب کھائیں۔
’گرمیوں کا موسم آتا تو وزیر خاں کے چوک میں جاکر فالودہ پینے کی خواہش کا اظہار کرتے تھے۔ بات یہ تھی کہ لاہور پہنچتے ہی طالب علمی کے زمانے کا کھلنڈرا پن تازہ ہو جاتا تھا۔‘
انھیں دوستوں اور کھانے پینے کے چیزوں کا ہی خیال نہیں رہتا تھا۔ کوئل کی صدا، راوی اور شہر کے درخت بھی انھیں بے طرح یاد آتے۔
’کیا اب بھی راوی کے اُس پار مقبرہ جہانگیر کے باغ میں کوئل کی صدا سنائی دیتی ہے؟‘ (بنام سالک)
’کیا اس کے باغوں میں اب بھی سفیدے کے اونچے اونچے درخت خوشبو سے لدے کھڑے ہیں، کیا اب بھی راوی مغلوں کی یاد میں سسکتا رہتا ہے کیا امریوں کی گہری اور تاریک سبزی اب بھی عنابی بادلوں کے ساتھ آتی ہے اور برسات میں رُلاتی ہے؟‘ (بنام ہاجرہ مسرور)
پطرس کی ’کیا اب بھی‘ ‘کی گردان سے اختر شیرانی کی نظم’ ’او دیس سے آنے والے بتا‘ کی طرف دھیان جاتا ہے کہ پطرس کو بھی’ ’کس حال میں ہیں یارانِ وطن‘ ‘کا خیال رہتا ہے۔ محبوب شہر کی یاد ستاتی ہے۔ اس لیے وہ اس کے بارے میں خبروں کی کھوج میں رہتے ہیں۔
’دیارِ محبوب کی ہر خبر طبیعت میں ایک طلاطم پیدا کردیتی ہے اور کوئی خبر نہ آئے تو زندگی ایک مسلسل فراق معلوم ہوتی ہے۔‘ (بنام امتیاز علی تاج)

فیض احمد فیض اور ن م راشد ایک تقریب میں

’احباب کی یاد کبھی دل سے محو نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی کوئی لطیفہ کانوں تک پہنچ جاتا ہے تو طبیعت دن بھر کو رنگین ہوجاتی ہے ورنہ اکثر یہ کیفیت رہتی ہے کہ ’اماں میرے بھیا کو بھیجو ری کہ ساون آیا۔‘ (بنام بیگم آمنہ مجید ملک)
دیارِغیر میں کوئی محرم رازمل جاتا توتذکرہ لاہور سے غم غلط کرتے۔ اس کام کے لیے عاشق حسین بٹالوی سے بڑھ کر ان کا مونس و غمخوار کون ہوتا کہ وہ چلتا پھرتا لاہور تھے۔ اس لیے ایک دفعہ کسی سرکاری کام سے لندن جانا ہوا تو ان سے ملاقات میں لاہور لاہور کا ورد ہوتا رہا۔ عاشق حسین بٹالوی نے لکھا:
’گفتگو کا سیلاب اپنا بند توڑ کر جاری ہو گیا۔ لندن اور نیویارک کو ہم دونوں بھول گئے۔ ہمارا موضوع صرف لاہور تھا۔ گورنمنٹ کالج اور ایف سی کالج کی باہمی رقابت، افتخارالدین احمد اور محمد نثار کی کرکٹ، ہریش چندر اور ساہنی کی ٹینس، ایس پی ایس کے ہال کے مشاعرے،آغا حشر کے ڈرامے،،تاجور، سالک، حفیظ ، تاثیر، سوندھی،حکیم احمد شجاع ، ڈاکٹر عالم وغیرہ سے لے کرسَرفضل حسین اور اقبال تک شاید ہی کوئی موضوع ہوگا جس پر ہم نے قہقہوں اور آنسووں سے ملی جلی آواز میں بے دریغ باتیں نہ کی ہوں۔
باہر کثیف دھند چھائی ہوئی تھی اور چاروں طرف آکسفورڈ سٹریٹ کا شور برپا تھا ۔ ادھر ہوٹل کے اندر ایک نرم و گرم کمرے میں بیٹھے ہم لاہور کا گویا ’آپریشن‘ کرنے میں مصروف تھے۔وقت کی رفتار یکایک تھم گئی تھی بلکہ یوں کہنا صحیح ہوگا کہ دونوں گویا زمان و مکاں سے بے نیاز ہوگئے تھے۔ ‘

پطرس اور گورنمنٹ کالج

 پطرس کے لیے گورنمنٹ کالج، کالج نہیں، اک جہان تھا گویا۔ اس سے ان کا رشتہ کثیرالجہتی ہے۔ وہ کالج کے قابلِ فخر طالب علم، پروفیسر اور پرنسپل رہے۔ ہر روپ میں ممتاز ۔یہ تعلیمی ادارہ ان کے رگ وپے میں سمایا تھا۔ ن م راشد کے بقول ’وہ گورنمنٹ کالج کو ہمیشہ ’سویز کے اس  طرف کا بہترین کالج‘ کہا کرتے تھے اور جب بھی گورنمنٹ کالج کا نام لیتے تو بڑے غرور سے لیتے اوراسے یاد کرکے ان پر اُداسی طاری ہو جاتی۔‘

پطرس بخاری آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ چھوڑنے کے بعد 1947ء میں گورنمنٹ کالج کے پرنسپل بنے (فوٹو: اے ایف پی)

آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ چھوڑنے کے بعد وہ 1947ء میں گورنمنٹ کالج کے پرنسپل بنے۔ کالج میں کئی برس بعد واپسی پر ان کی سرشاری کے بارے میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم لکھتے ہیں:
’مجھے خوب یاد ہے کہ جب ان کا سامان ٹرک سے اتارا جا رہا تھا تو وہ میرے ساتھ کالج کے وسیع صحنوں اور سرسبز میدانوں میں گشت لگا رہے تھے اور ان کی آنکھوں کی چمک اور لبوں کا تبسم صاف صاف بتارہا تھا کہ انہیں اس قدیمی ماحول میں اپنے آپ کو دیکھ کر کتنی مسرت ہورہی ہے۔ اُن کے ذہن میں کالج کی عظیم الشان عمارت کا گوشہ گوشہ بدستور تازہ تھا، وہ ان میں سے یوں گزر رہے تھے جیسے کوئی اپنے پرانے گھر میں پھر رہا ہو۔ وہ جہاں بھی کوئی نئی چیز دیکھتے تو انہیں اس میں اجنبی پن محسوس نہ ہوتا ۔ جہاں کوئی چیز اپنی اصلی جگہ سے ہلی ہوتی توکہتے، ’ہیں! یہ کیا ہوا؟
’بہرحال وہ اس کوچے کے ذرے ذرے سے آشنا تھے کیونکہ ادھر مدتوں آئے گئے تھے۔‘

میکلوڈ روڈ کا فلیٹ

پطرس کی لاہور میں مختلف جگہوں پررہائش رہی۔ میکلوڈ روڈ پر عطر کپور چند بلڈنگ (عاشق حسین بٹالوی نے بلڈنگ کا نام ایشر داس لکھا ہے) کے فلیٹ کا حوالہ کئی جگہ آیا ہے۔ اس سے جڑے چند دلچسپ قصے بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ایک دفعہ صوفی تبسم نے قلعہ گجر سنگھ کے رہائشی طالب علم کے ہاتھ پطرس بخاری کو کوئی پیغام بھجوایا۔ طالب علم نے گھنٹی کا بٹن دبایا اورصاحبِ خانہ کے دروازے پر آنے تک بجاتا ہی چلا گیا۔ بخاری صاحب نے دروازہ کھولا اور چھوٹتے ہی اس کی توجہ گھنٹی کے بٹن کے اوپر درج اس عبارت کی طرف مبذول کروائی:
 Be brief and patient
اس کے بعد یہ کہہ کر
NO mistake in future
دروازہ بند کر دیا۔
اس طرز عمل کے ردِعمل میں طالب علم زور سے گھنٹی بجا کر رفوچکر ہو گیا۔
 اگلے روز کلاس میں اس طالب علم کا سانس سوکھا ہوا تھا  کہ کل کی حرکت پر استادِ محترم خوب بگڑیں گے لیکن انھوں نے کہا تو بس اتنا :
I LIKED IT

راشد کی نظم ’اتفاقات‘ پطرس کو اس قدر پسند آئی کہ وہ بنفسِ نفیس اپنے شاگرد سے قلعہ گجر سنگھ ان کی رہائش گاہ پر ملنے آئے

ن م راشد، پطرس کے شاگرد تھے۔ وہ میکلوڈ روڈ کے فلیٹ پر پطرس کی قائم کردہ اردو مجلس کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوتے۔ ایک دن میکلوڈ روڈ سے گزرتے راشد نے سوچا چلو استاد گرامی سے ملنے چلتے ہیں۔ ان کے ہاں پہنچے تو پطرس نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ مصروف آدمی ہیں، اس لیے چند منٹ سے زیادہ وقت ان کے پاس نہیں اور  اس دوران بھی انھیں ساکت وسامت بیٹھنا ہوگا۔ اس وقت وہاں امتیاز علی تاج بھی موجود تھے ۔ دونوں دوست کسی ڈرامے کے ترجمے پر مغز ماری کر رہے تھے۔ترجمے کے بارے میں ان حضرات کی ذہنی مشقت سے راشد بہت متاثر ہوئے۔
 پھر وہ دن بھی آیا کہ راشد کی نظم ’اتفاقات‘ پطرس کو اس قدر پسند آئی کہ وہ بنفسِ نفیس اپنے شاگرد سے قلعہ گجر سنگھ ان کی رہائش گاہ پر ملنے آئے۔ راشد کی کتاب ’ایران میں اجنبی‘ کے دیباچے میں پطرس نے لکھا:
راشد صاحب! وہ دن آپ کو یاد ہے جب آپ کی نظم ’اتفاقات‘ شائع ہوئی تھی اور میں آپ کے گھر پر قلعہ گجر سنگھ میں والہانہ آپ کو مبارکباد دینے آیا تھا۔‘

پطرس بخاری اور امرتا شیرگل

قرة العین حیدر نے خالد حسن کے نام خط میں لکھا :’فیض صاحب میں  boresکو جھیلنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔‘
پطرس بخاری کا معاملہ اس سے اُلٹ تھا۔ وہ بور لوگوں سے کنی کتراتے تھے۔ فیض ایک بور کو ان کے پاس لے کر گئے تو انھوں نے حیلے بہانے سے جان چھڑائی اور بعد میں فیض سے کہا کہ ’اَمرتا شیر گل تمھیں یاد ہے؟‘ اور پھر بتایا کہ کس طرح ایک بار وہ بورہونے پر بھری بزم سے اٹھ کر چلی گئی تھی۔
’ایک دفعہ اس کے اعزاز میں فلیٹز میں ایک بہت بڑی دعوت تھی، بڑا بڑا خان بہادر اور رائے بہادر بیٹھا تھا۔ اَمرتا آ کے بیٹھیں، آس پاس کے لوگوں سے کچھ دیر گفتگو کی اورکھانا شروع بھی نہ ہوا تھا کہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔’میں بور ہو گئی، میں جاتی ہوں۔‘ میزبان اور مہمان دیکھتے ہی رہ گئے اور وہ کھٹ کھٹ یہ جا وہ جا! اخلافی جرات اسے کہتے ہیں، مجھے آج تک اس واقعے سے رشک آتا ہے۔
پطرس کے نزدیک، امرتا غضب کی عورت تھی۔ امرتا بھی پطرس کو پسند کرتی تھی۔ اپنے شوہر کے نام خط میں اس نے پطرس کا ذکر بڑے اچھے لفظوں میں کیا :
 An interesting individual and a very likeable.
فیض کا ذکر ہے تو یہ بھی بتا دیں کہ ن م راشد کی طرح وہ بھی گورنمنٹ کالج میں پطرس کے شاگرد تھے۔ کالج کے باہر کی دنیا کو یاد کرتے ہوئے فیض نے ایک انٹرویو میں بتایا: ’پروفیسر بخاری مرحوم کے مکان پر ’ مجلس اردو‘کے اجلاس ہوتے تھے۔ ادبی حلقوں میں تاثیر مرحوم کی بزمِ فروغِ اردو کے چرچے تھے۔ یہ زمانہ لاہور میں اردو ادب کے شباب کا زمانہ تھا۔ تاثیر، پطرس ،صوفی تبسم، امتیاز علی تاج، سالک، حفیظ،ہری چند اختر مجالس کے روح رواں تھے۔ میری باقاعدہ شاعری کا آغاز بھی اسی دور میں ہوا۔‘

’پطرس کے مضامین‘ اردو کی وہ سدا بہار کتاب ہے جس کی اشاعت کو 90 سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے لیکن اس کی مقبولیت ہنوز برقرار ہے

گورنمنٹ کالج کے زمانے میں پطرس کی وجہ سے فیض کو ایک ’فیور‘ بھی ملی جس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ کمرہ امتحان میں فیض سگریٹ پینے کے لیے بے چین تھے۔ پطرس مہتمم امتحانات تھے ۔صوفی صاحب کی ڈیوٹی اس کمرے میں تھی جہاں فیض امتحان سے گزر رہے تھے۔
فیض نے ان سے پوچھا کہ کیا ہم سگریٹ پی سکتے ہیں؟ صوفی صاحب نے اس سلسلے میں پطرس سے رہنمائی چاہی تو انھوں نے کہا کہ ہاں جب تک پروفیسر جودھ سنگھ پرنسپل نہیں بنتے سگریٹ پیا جاسکتا ہے۔صوفی صاحب نے جب یہ خوش خبری طالب علم کو سنائی تو ان کے بقول ”فیض صاحب کے ہاتھ میں فی الفور ایک سگریٹ نمودار ہواجیسے قلم ہی سے ابھر آیا ہے۔ پھر قلم کے برش اور سگریٹ کے کش میں مقابلہ شروع ہوا اوراس کشمکش میں معطر دھوئیں کے غبارے پورے کمرے میں پھیل گئے۔‘

ہیرا منڈی میں گرفتاری

پطرس بخاری کو محفل آرائی کا بڑا شوق تھا۔ دن بھر جتنی بھی مصروفیت رہی ہو رات کو گپ شپ کے لیے بزمِ دوستاں ضرور آباد کرتے۔اس شوق میں دوستوں کو گاڑی میں پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی فراہم کرنی پڑتی ۔2010 میں، معروف شاعر شہزاد احمد نے، الحمرا میں ادبی کانفرنس میں گزرے زمانے کی یادیں تازہ کیں تو اس موقعے پر صوفی تبسم کی زبانی سنا ایک دلچسپ واقعہ بھی سنایا۔
 صوفی تبسم نے شہزاد احمد کو بتایا کہ ایک دفعہ دوست احباب پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر بیٹھے محوِ گفتگو تھے کہ ادھر پولیس والے آ گئے اور درشتی سے پوچھا کہ تم لوگ یہاں کیا کررہے ہو؟ پطرس کی گاڑی کی طرف اشارہ کرکے بولے ’یہ کھٹارا کس کا ہے؟‘اس کے بعد پطرس سے پوچھا کہ ان کی تعریف
انھوں نے جب’ اعتراف‘کیا کہ وہ گورنمنٹ کالج کے پرنسپل ہیں تو پولیس والوں نے یقین نہیں کیا اور کہا کہ شکل سے شریف آدمی معلوم ہوتے ہو لیکن ہو آوارہ گرد۔اس کے بعد سیدعابد علی عابد نے اپنا تعارف دیال سنگھ کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے کروایا تو اس کا بھی یقین نہ کیا گیا۔ فیض احمد فیض کو پاکستان ٹائمز اور چراغ حسن حسرت کو امروز کا ایڈیٹر تسلیم کرنے سے بھی پولیس والے انکاری تھے۔
صوفی تبسم نے خود کو گورنمنٹ کالج میں فارسی کا استاد بتایا تو انھیں جواب ملا کہ تم استاد نہیں بہت استاد ہو۔ قصہ مختصر، پولیس ان ’مجرموں‘ کو گرفتار کرکے تھانے لے گئی، یہ تو خیریت گزری کہ وہاں کسی نے ان باکمال ہستیوں کو پہچان لیا، جس کے بعدمعافی تلافی کے لیے پولیس کے اہلکاروں نے منت ترلے شروع کر دیے۔
شہزاد احمد نے ایک دفعہ سید عابد علی عابد سے اِس واقعے کا ذکر کیا تو انھوں نے اس کی تصدیق کی اور کہا کہ بس صوفی صاحب نے پکڑے جانے کی جگہ صحیح نہیں بتائی، ہم اصل میں ہیرامنڈی میں پکڑے گئے تھے۔

گریٹا گاربو کے عاشقو

پطرس بخاری کے بہت سے شاگردوں نے ان کے طرزِتدریس پرروشنی ڈالی ہے جن میں راشد اور کنھیا لال کپور بھی شامل ہیں۔ ن م راشد نے لکھا ہے کہ جب کوئی طالب علم ان کا لیکچر توجہ سے نہ سنتا تو اسے کہتے، ’گریٹا گاربو کے عاشقو میری بات دھیان سے سنو۔‘ راشد کا کہنا ہے کہ اس زمانے میں گریٹا گاربو اکثر طالب علموں کی محبوبہ تھی اور اُس کی تصویر ان کے کمروں میں لگی ہوتی تھی۔
ممتاز اداکار بلراج ساہنی بھی پطرس کے شاگرد تھے۔ کنھیالال کپور نے پطرس کے بارے میں اپنے مضمون ’پیرو مرشد‘ میں لکھا ہے کہ کلاس میں لیکچر سنتے بلراج کی توجہ بٹ جاتی تو بخاری صاحب کہتے ’کیا بات ہے ساہنی، آج کچھ کھوئے کھوئے نظر آتے ہو۔ جانتے ہو جب کوئی نوجوان اداس رہتا ہے تو اس کی اداسی کی صرف دو وجہیں ہوتی ہیں یا وہ عشق فرمانے کی حماقت کر رہا ہے یا اس کا بٹوہ خالی ہے۔‘

 لاہور کا جغرافیہ

’پطرس کے مضامین‘ اردو کی وہ سدا بہار کتاب ہے جس کی اشاعت کو 90 سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے لیکن اس کی مقبولیت ہنوز برقرار ہے۔ لاہور میں تبدیلیوں کے بڑے جھکڑ چلے لیکن حیرت کی بات ہے اس کتاب میں شامل مضمون ” لاہور کا جغرافیہ “ پرانا نہیں ہوا اور اسے نہ صرف آج بھی دلچسپی سے پڑھا جاسکتا ہے بلکہ اس میں شہر کے بدلاؤ اور پھیلاؤکے بارے میں طنز کی صورت میں جو احتجاج ہے اس کا اطلاق معاصر صورت حال پر بھی ہوتا ہے۔پطرس لکھتے ہیں:
لاہور پنجاب میں واقع ہے۔ لیکن پنجاب اب پنج آب نہیںرہا۔اس پانچ دریاؤں کی سرزمین میں اب صرف چار دریا بہتے ہیں اور جو نصف دریا ہے ، وہ تو اب بہنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ اصطلاح میں اسے راوی ضعیف کہتے ہیں۔ ملنے کا پتہ یہ ہے کہ شہر کے قریب دو پل بنے ہیں۔ ان کے نیچے ریت میں یہ دریا لیٹا رہتا ہے۔ بہنے کا شغل عرصے سے بند ہے۔
اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے اور روز بروز واقع تر ہورہا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ دس بیس سال کے اندر لاہور ایک صوبے کا نام ہوگا جس کا دارالخلافہ پنجاب ہوگا۔ یوں سمجھیے کہ لاہور ایک جسم ہے جس کے ہر حصے پر وَرم نمودار ہورہا ہے لیکن ہر وَرم مواد فاسد سے بھرا ہے۔
’لاہور میں ہر عمارت کی بیرونی دیواریں دہری بنائی جاتی ہیں۔ پہلے اینٹوں اور چونے سے دیوار کھڑی کرتے ہیں اور پھر اس پر اشتہاروں کو پلستر کردیا جاتا ہے جودبازت میں رفتہ رفتہ بڑھتا جاتا ہے۔‘

سیب کا درخت

 آل انڈیا ریڈیو سے وابستگی کے لیے دہلی جانے سے پہلے کا جو زمانہ پطرس نے لاہور میں گزارا وہ ان کی ادبی زندگی کا اہم ترین دور ہے۔ گورنمنٹ کالج میں ادب کے استاد تھے۔ مضامینِ نو کے انبار لگا رہے تھے۔ نیاز مندانِ لاہور کے نام سے قائم ادبی مجلس کے اہم رکن تھے۔
حفیظ جالندھری کے بقول ’اِس انجمن کی شمع پطرس بخاری ہی کی ذات تھی۔“ اہل زبان سے ادبی مجادلے جاری تھے۔ ان کی پہلو دار علمی سرگرمیوں کاایک محور انگریزی سے اردو ترجمہ بھی تھا۔ ان کے جس ترجمے کا زیادہ چرچا ہوا وہ گالزوردی کی مشہور کہانی The Apple Tree کا، ”سیب کا درخت“ کے عنوان سے ترجمہ تھا ۔
ممتاز ادیب محمد خالد اختر کے بقول :”احمد شاہ بخاری پطرس کا گالزوردی کی کہانی ”ایپل ٹری “کا ترجمہ ابھی تک غالباً اردو زبان میں سب سے خوبصورت ترجمہ ہے۔ واحد ترجمہ جو اوریجنل کی شاعری اور لطافت کو دو چند کر دیتا ہے۔‘
اردو کے صاحبِ طرز نثر نگار شیخ منظور الٰہی نے لکھا ’ Apple Treeکا ترجمہ نقشِ اول معلوم ہوتا تھا۔ ترجمے میں پطرس نے اپنی قادرالکلامی کا جوہر دکھایا تھا۔ کہیں کہیں نثر میں شاعری کی جھلک تھی۔

 لاہور سے جدائی کا غم

 پطرس بخاری کے لاہور سے تعلق کی ابتدا 1916ءمیں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلے سے ہوئی جہاں سے 1922ءمیں ایم اے انگریزی کرنے کے بعد اسی ادارے میں لیکچرر کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا۔ 1925ءمیں کیمبرج یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈگئے۔یہ لاہور سے ان کی پہلی جدائی تھی۔دوستوں کے نام خطوط میں انگلینڈ کے ماحول کا ذکر کرتے کرتے انھیں لاہور کی یاد آجاتی ہے:
”...لیکن وہ ہندوستان کی صحبتیں کہاں، وہ خوش گفتاری ، وہ شعر بازی، وہ پھبتیاں ، وہ روٹھنا، وہ منانا، وقت اپنے گھر کا غلام، موقع اور محل خانہ زاد، وہ ہوٹل کی مجلسیں، وہ دارالاشاعت کے مجمعے، ہائے امتیاز۔ایک ہوک سی دل میں اٹھتی ہے...جگل میرے بھائی اور حفیظ میرے بھائی اور امتیاز میرے بھائی اور سالک میرے بھائی خط ضرور لکھتے رہا کرو، تم سب باری باری بھی خط لکھو تو ہر ہفتے مجھے اپنے احباب کی ایک جیتی جاگتی تصویر مل جایا کرے۔
تعلیم مکمل کرنے بعدپطرس لاہور لوٹ آئے جس کے بعد وہ تقریباً نوسال شہر کی علمی، ادبی اور تہذیبی زندگی میں بہت فعال رہے۔ 1936 میں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہو کر دِلّی چلے گئے جہاں لاہور کی کمی اس لیے زیادہ محسوس نہیں ہوئی کہ انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے دِلّی اسٹیشن میں اردو کے نامور ادیبوں کو اکٹھا کرلیا تھا۔
دوسرے دِلّی اردو زبان وادب کا بڑا مرکز اور عظیم تہذیبی شہر تھا۔ لاہور آنا جانا بھی اُن کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔اس لیے دِلّی میں انھیں تنہائی کا احساس تونہیں ہوا لیکن آل انڈیا ریڈیو کی نوکری ان کے لیے تخلیقی اعتبار سے تباہ کن ثابت ہوئی۔ ادب کی تدریس اور تخلیقی سرگرمیوں سے دوری سے اُن کا ذاتی نقصان ہی نہیں ہوا اردو ادب بھی گھاٹے میں رہا۔
وہ پطرس لاہور میں علم وادب جِن کا اوڑھنا بچھونا تھا ، دِلّی میں بس ریڈیو کے افسر ہو کر رہ گئے۔اس افسری سے ان کا جو زیاں ہوا اس کا انھیں بعد میں خود بھی احساس ہوگیا تھا۔ ان کی زندگی کے آخری برسوں میں عاشق حسین بٹالوی نے ان سے کہا: ”آپ نے آل انڈیا ریڈیو کے چکر میں پڑ کر اپنی زندگی کے بہترین دس سال کیوں ضائع کیے؟
اس پر پطرس نے جواب دیا :’بالکل ٹھیک کہا آپ نے۔ مجھے گورنمنٹ کالج ہی میں رہنا چاہیے تھا لیکن اب ماضی کی غلطیوں پر افسوس کرنے سے کیا حاصل؟‘
 آل انڈیا ریڈیو سے وابستگی سے نقصان کی تلافی کی صورت گورنمنٹ کالج کے پرنسپل بننے سے نکلی اور وہ اپنے عزیز شہر لوٹ آئے۔ تقسیم کے بعد ان کے کئی دوست بھی لاہور آگئے، باقی پہلے سے لاہور میں موجود تھے۔ اس لیے ان کے لیے ہر اعتبار سے یہ فضا سازگار تھی لیکن 1950ء میں وہ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے کی حیثیت سے چلے گئے۔ 1954ءمیں اقوامِ متحدہ میں اَنڈرسیکرٹری بن گئے۔ یہ دور اُن کی زندگی کا سب سے خراب دور تھا؛ بیماری، تنہائی، اہل خانہ سے دوری، چھوٹے بھائی کی بے اعتنائی اور دوست احباب سے جدائی،اس سب کا انھیں بہت رنج تھا۔
 عاشق حسین بٹالوی نے لکھا ہے کہ پطرس نے لاہور میں اپنے مخالفین کے رویے سے تنگ ہو کر گورنمنٹ کالج چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ ہماری دانست میں غیر موافق حالات کے سامنے سپر ڈالنے  کے بجائے پطرس کو ان کا مقابلہ کرنا چاہیے تھا۔ ان جیسے لائق آدمی کو نظر انداز کرنا کسی صورت ممکن نہ تھا۔
وہ اگر کسی بڑے انتظامی عہدے پر نہ بھی فائز ہوتے تو گورنمنٹ کالج میں پروفیسر کی حیثیت سے ان کی وابستگی بھی کم اہمیت کی حامل نہ تھی لیکن بڑا عہدہ پطرس کی کمزوری تھی، اسی کے باعث وہ پہلے دِلّی اور پھر امریکا کو سدھارے۔ ٹھیک ہے زندگی میں ہر انسان کو اپنی ترجیحات کے تعین کا حق ہے لیکن تخلیقی آدمی اگر افسرانہ اور انتظامی جھنجھٹوں میں نہ پڑے تو اس میں اس کا اور جس زبان میں وہ لکھتا ہے دونوں کا بھلا ہے۔ میرے خیال میں پطرس سے محبت کرنے والے اُن سے ایسا گِلہ کرنے حق رکھتے ہیں۔

شیئر: