افغان طالبان نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ان کی تحریک کا حصہ نہیں تھی اور ٹی ٹی پی پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستانی حکومت کے ساتھ امن قائم کرنے پر توجہ دے۔
پاکستانی طالبان اسلام آباد میں حکومت کا تختہ الٹنے اور 22 کروڑ سے زیادہ کی جنوبی ایشیائی قوم پر اپنی طرز کے اسلامی قانون کے ساتھ حکومت کرنے کے لیے برسوں سے لڑائی میں مصروف ہیں۔ اس گروپ نے حالیہ مہینوں میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف اپنی مہم تیز کردی تھی۔
عرب نیوز کے مطابق سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک ویڈیو میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ نور ولی محسود کو اسلامی امارات افغانستان کا حصہ ہونے کا دعویٰ کرتے دیکھا جا سکتا ہے، تاہم افغانستان میں طالبان کی حکومت نے اس کی تردید کی ہے۔
مزید پڑھیں
-
ٹی ٹی پی کے کچھ گروپس کے ساتھ حکومت بات کر رہی ہے: عمران خانNode ID: 605371
-
حکومت ٹی ٹی پی مذاکرات: اس بار نتائج کیسے مختلف ہوسکتے ہیں؟Node ID: 616951
-
اے پی ایس حملہ: حکومت کی جواب جمع کرانے کے لیے تین ہفتے کی مہلتNode ID: 625621
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے عرب نیوز کو جمعے کے روز بتایا کہ ’وہ ایک تنظیم کے طور پر اسلامی امارات افغانستان کا حصہ نہیں اور ہمارے اہداف ایک جیسے نہیں ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم ٹی ٹی پی کو مشورہ دیں گے کہ وہ اپنے ملک میں امن اور استحکام پر توجہ دے۔ یہ بہت اہم ہے تاکہ وہ خطے اور پاکستان میں دشمنوں کی مداخلت کے کسی بھی امکان کو ختم کر سکیں۔‘
ترجمان نے کہا کہ اسلامی امارات افغانستان، پاکستانی حکومت سے بھی درخواست کرتی ہے کہ وہ خطے اور پاکستان کی بہتری کے لیے ٹی ٹی پی کے مطالبات پر غور کرے۔
حکومت پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان امن کے معاہدوں کے لیے ماضی میں کئی بار کوششیں ہوچکی ہیں۔
نومبر میں پاکستانی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ایک ماہ کی جنگ بندی پر متفق ہوگئی ہے اور فریقین کے متفق ہونے پر اس میں توسیع بھی ہوسکتی ہے، جس کے بعد جامع امن معاہدے کی راہ ہموار اور برسوں سے جاری خونریزی ختم ہوتی نظر آنے لگی تھی۔
تاہم ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے جمعرات کو جنگ بندی میں توسیع سے انکار کرتے ہوئے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ حکومت پاکستان طے پانے والے معاہدے کے کچھ حصوں کی خلاف ورزی کر رہی ہے اور افغان سرحد پر صوبہ خیبر پختونخوا میں ان کے ٹھکانوں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے گذشتہ ماہ اعتراف کیا تھا کہ افغان طالبان، پاکستانی حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں تاہم ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی پاکستان کا ’اندرونی معاملہ‘ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اسلامی امارات کا موقف ہے کہ ہم دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ ہم پاکستان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔‘
دوسری جانب حکومت پاکستان نے فی الحال ٹی ٹی پی سے جنگ بندی کی صورت حال پر تبصرہ نہیں کیا ہے۔
کئی بار کوشش کے باوجود جمعے کو وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے اس معاملے پر ردعمل ظاہر نہیں کیا جبکہ خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ ’یہ وفاق کا معاملہ ہے۔‘
ملالہ یوسفزئی کو قتل کرنے کی کوشش کے لیے مغرب میں سب سے زیادہ مشہور ٹی ٹی پی نے برسوں کے دوران ہزاروں فوجی اہلکاروں اور شہریوں کو بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں ہلاک کیا ہے۔
ملالہ یوسفزئی سکول کی طالبہ تھیں جنہیں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کی کوششوں پر نوبل انعام مل چکا ہے۔
ٹی ٹی پی کے حملوں میں دسمبر 2014 میں صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں پاکستانی فوج کے زیر انتظام چلنے والے سکول پر حملہ شامل ہے جس میں 132 بچوں سمیت 149 افراد ہلاک ہوئے۔
ترجمہ: بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو