جدہ۔۔۔۔۔عرب اتحاد کے ترجمان میجر جنرل احمد عسیری نے واضح کیا ہے کہ وہ خیریت سے ہیں اور جو کچھ ہوا معمولی سی جارحیت تھی۔وہ لندن میں یورپی کونسل کے تعلقات خارجہ سیمینار میں شرکت کے موقع پر صحافیوں کے سوالات کے جواب دے رہے تھے۔ سیمینار میں جاتے وقت بعض نوجوانوں نے ان پر حملے کی کوشش کی تھی جسے برطانوی پولیس نے ناکام بنا دیا تھا۔ انہوں نے سیمینار میں تاخیر سے پہنچنے پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ مظاہرے اور حملے میں فرق نہیں کرتے بہر حال تاخیر سے پہنچنے پر وہ شرمندہ ہیں۔عاجل ویب سائٹ نے احمد عسیری پر حملہ آور برطانوی ، بحرینی اور ایرانی نوجوانوں کے نام جاری کردیئے۔ بحرینی کا نام موسیٰ علی،برطانوی شہری کا نام سام ویلٹن باقی دیگر 2کا تعلق ایران سے بتایا گیا ۔ برطانوی پولیس نے حملہ آوروں سے پوچھ گچھ شروع کردی۔ اس حوالے سے برطانیہ میں سعودی سفارتخانے نے بیان جاری کرکے واضح کیا کہ عسیری شدت پسند عناصرکی ہنگامی آرائیوں کے باوجود برطانیہ میں اپنا مشن جاری رکھیں گے۔سیمینار کو معطل کرنے کی کوشش کی گئی جسے ناکام بنادیا گیا۔ اس موقع پر عسیری نے شرق الاوسط کو خصوصی انٹرویودیتے ہوئے کہا کہ الحدیدہ شہر اور اس کی بندرگاہ ہمارا اگلا ہدف ہے۔ الحدیدہ اور بندرگاہ پر کنٹرول چند دنوں کی بات ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ برطانیہ ،امریکہ اور اقوام متحدہ نے انسانی امداد کی ترسیل کیلئے حدیدہ بندرگاہ پر حملہ نہ کرنے کی درخواست کی تھی اسی وجہ سے اسے نہیں چھیڑا گیا۔ اس بندرگاہ سے ایرانی اسلحہ یمن پہنچنے کے سوا کوئی اور کام نہیں ہوا۔ بین الاقوامی مبصرین ایران سے یمن کیلئے اسلحہ سپلائی سے آنکھیں موندے رہے۔