انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں ’پینسل کا گاؤں‘ کورونا کی وبا سے کیسے متاثر ہوا؟
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں ’پینسل کا گاؤں‘ کورونا کی وبا سے کیسے متاثر ہوا؟
پیر 20 دسمبر 2021 16:22
انڈیا میں کہیں سے بھی اگر کوئی پینسل خریدیں تو اس بات کا زیادہ امکان ہوگا کہ اسے چنار کے درختوں کی نرم لکڑی استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ہوگا جو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں ایک چھوٹے سے گاؤں اوکھو سے حاصل کی جاتی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ریڈیو شو میں اس علاقے کو ’پینسل کا گاؤں‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ علاقہ انڈیا کے پینسل مینوفیکچررز کےلیے استعمال ہونے والی 90 فیصد سے زیادہ لکڑی فراہم کرتا ہے۔
واضح رہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے سکولوں کی بندش نے تعلیم اور متعلقہ صنعتوں کو ایک بڑا دھچکا پہنچایا ہے۔ جس سے اوکھو میں پینسل بنانے کے کارخانوں کی افرادی قوت میں تیزی سے کمی دیکھی گئی ہے۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں 18 فیکٹریوں میں سے 17 پلوامہ ضلع میں اور سات دریائے جہلم کے کنارے اوکھو میں ہیں۔
جہلم ایگرو انڈسٹریز کے مالک منظور احمد علائی نے کہا کہ ’پہلے ہمارا ماہانہ ایک لاکھ تیس ہزار ڈالرز سے زیادہ کا کاروبار تھا، لیکن اب یہ صرف 27 ہزار ڈالر سے 40 ہزار ڈالر تک رہ گیا ہے۔‘ منظور احمد علائی نے مزید کہا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ان کے یونٹ کی پیداوار پہلے کے مقابلے میں 30 فیصد تک کم ہوئی ہیں-
45 سالہ منظور احمد نے بتایا کہ انہوں نے اپنی فیکٹری 2013 میں اس وقت لگائی جب انہیں پہلی بار معلوم ہوا کہ اس علاقے سے لکڑی نکل رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے جموں میں پینسل کے ایک مینوفیکچرنگ یونٹس کا دورہ کیا جہاں پینسل بنانے سے پہلے لاگوں سے سلیٹ بن رہے تھے، پھر میں نے مینوفیکچررز کو مشورہ دیا کہ یہ لکڑی کا بلاک وادی (اوکھو) میں ہی بنایا جا سکتا ہے جس سے لاگت اور وقت کی بچت ہو گی، پھر 2013 میں ہم نے پہلا یونٹ اس علاقے میں قائم کیا۔‘
منظور احمد نے بتایا ہے کہ انہوں نے پہلے فیکٹری میں 15 ملازمین کے ساتھ کام شروع کیا جس کی تعداد سال بعد دس گنا بڑھ گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی کمپنی اور دیگر مقامی پروڈیوسرز نے جموں، چندی گڑھ اور گجرات میں پینسل فیکٹریاں قائم کیں، جس میں ملک کے سب سے بڑے پینسل مینوفیکچررز میں سے ایک ’نٹراج‘ ہے۔ علائی نے کہا کہ اوکھو کو حکومت کی توجہ کی ضرورت ہے۔
برکت ایگرو انڈسٹریز کے مالک فیروز احمد نے کہا کہ وبا نے اس صنعت کو ایک گہرے بحران میں ڈال دیا ہے۔ فیروز احمد نے بتایا کہ ’میں نے 2014 میں پینسل کے کاروبار میں قدم رکھا ہے۔‘
انہوں نے کہا، ’یہ صنعت نہ صرف مقامی لوگوں کو بلکہ باہر کے لوگوں کو بھی ملازمت دیتی ہے، لیکن حکومت ہماری حفاظت کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہی ہے۔‘
دوسری جانب ایک مقامی انتظامیہ کے اہلکار نے کہا کہ حکومت مراعات کے ذریعے صنعت کو فروغ دینے کے طریقے تلاش کر رہی ہے، لیکن مینوفیکچررز کو پہلے کچھ ضروریات کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔
جموں و کشمیر انتظامیہ میں صنعت اور تجارت کے ڈائریکٹر محمود احمد شاہ نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’اوکھو گاؤں میں پینسل کی صنعت ایک غیر منظم شعبہ ہے جس کا مطلب ہے کہ فیکٹریاں نجی زمینوں سے چل رہی ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ اوکھو گاؤں میں ایک جگہ کو انڈسٹریل اسٹیٹ قرار دیں اور وہاں اس صنعت کو مکمل منتقل کریں۔
انڈیا کی وزارت داخلہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اوکھو کو مینوفیکچرنگ کے لیے ایک ’خصوصی زون‘ کے طور پر تیار کیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق اس علاقے سے پورے ملک کو تیار شدہ پینسلیں فراہم کی جائیں گی۔