Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تقرری: ’سینیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی نامنظور‘

بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کے عہدیداروں نے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
پاکستان کی وکلاء تنظیموں نے واضح کیا ہے کہ وہ خاتون جج کی سپریم کورٹ میں تقرری کے خلاف نہیں لیکن ججز کی تعیناتی سینیارٹی کے مطابق ہونی چاہیے۔
اسلام آباد میں پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کے عہدیداروں نے پیر کو پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ان کا مطالبہ ایک ہی ہے کہ سینیارٹی کے اصول کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ 
وکلاء تنظیموں نے سپریم کورٹ میں جسٹس عائشہ ملک کی تقرری پر غور کے لیے 6 جنوری کو بلائے گئے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے روز ہڑتال اور عدالتی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ 
وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل خوشدل خان نے کہا کہ ’ججز تقرری میں سینیارٹی کا اصول ہر صورت سامنے رکھنا چاہیے۔ لاہور ہائی کورٹ سے جونیئر ججز کی تقرری پر پہلے بھی احتجاج کرتے رہے ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک کا نام دوبارہ جوڈیشل کمیشن میں لایا گیا ہے۔‘ 
انھوں نے واضح کیا کہ ’خاتون جج کو سپریم کورٹ لانے کے خلاف نہیں ہیں۔ ایک کے بجائے تین خواتین ججز سپریم کورٹ میں لائیں مگر سینیارٹی کے مطابق ہونا چاہیے۔ وکلا برادری صنفی امتیاز پر یقین نہیں رکھتی۔‘
انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار سمیت تمام بار کونسلز 6 جنوری کو ملک بھر میں ہڑتال اور عدالتی بائیکاٹ کریں گی۔ کسی جج سے ہماری ذاتی دشمنی نہیں ہے۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ جسٹس عائشہ ملک کو لانے کا مقصد کیا ہے۔’ 
وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے کہا کہ ’چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد اگلے ماہ ریٹائر ہو رہے ہیں۔ خود چیف جسٹس کہہ چکے ہیں کہ ججز کی تقرری کا معاملہ نئے چیف جسٹس پر چھوڑنا چاہیے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نئے جج کی تقرری آنے والے چیف جسٹس پر چھوڑ دیں۔‘ 

تمام بار کونسلز نے 6 جنوری کو ملک بھر میں ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ فائل فوٹو اے ایف پی

انھوں نے کہا کہ ’ججز تقرری کے قانون میں ترمیم کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ ہائی کورٹس اور دیگر عدالتوں میں بھی ججز تقرری قانون اور اصولوں کے مطابق ہونی چاہیے۔ ایک بار اگر رولز اور پیرامیٹرز بن جائیں تو ججز تقرری کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘
اس معاملے پر اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’میری نظر میں سینیارٹی کوئی اصول نہیں ہے۔ یہ ایک مفروضہ ہے جس پر نہ پہلے کبھی عمل ہوا ہے نہ اب ہوگا۔ وکلاء تنظیمیں ہڑتال کرنے کے بجائے ججز تعیناتی کا کوئی متبادل فارمولا دیں۔ اگر وہ فارمولا نہیں دے سکتے تو سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کا نمائندہ موجود ہے وہاں پر بات کریں اور اپنا موقف ججز کے سامنے رکھیں۔ اس کے بعد جو فیصلہ ہو اس کو مانا جائے۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت تو کوئی نہیں جانتا کہ کون سا ایسا فارمولا ہے جس سے ججز تعیناتی کے عمل کو شفاف بنایا جا سکتا ہے تو یہ کہنا کہ جب تک فارمولا نہیں آتا تو سینیارٹی کا اصول اپنایا جائے تو یہ ایک بند گلی ہے۔‘
جسٹس عائشہ ملک کون ہیں؟
لاہور ہائی کورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق جسٹس عائشہ ملک 1966 میں پیدا ہوئیں اور انہوں نے اپنی تعلیم پاکستان سمیت دیگر ملکوں بشمول فرانس، برطانیہ اور امریکہ میں حاصل کی۔
قانون کی اعلیٰ تعلیم ایل ایل ایم امریکہ کے مشہور ترین ہارورڈ لا سکول سے حاصل کی۔
بحیثیت وکیل وہ ہائی کورٹس، ڈسٹرکٹ کورٹس، بینکنگ کورٹس، سپیشل ٹریبیونلز اور آربٹریشن کورٹس میں بے شمار کیسز لڑتی رہی ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک مئی 2012 میں لاہور ہائی کورٹ کی ایڈیشنل جج مقرر کی گئی تھیں۔ جسٹس عائشہ ملک لاہور ہائی کورٹ میں سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر ہیں اور بطور ہائی کورٹ کے جج  ان کی ریٹائرمنٹ دو جون 2028 کو ہوگی۔

شیئر: