پاکستان کے صوبہ پنجاب کے سیاحتی مقام مری میں شدید برف باری کے باعث 23 افراد کی ہلاکت کے بعد حکومت نے انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے جو مختلف سوالات کے جواب تلاش کرکے اپنی تجاویز دے گی۔
تاہم عوامی حلقوں اور اپوزیشن کی جانب سے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں
-
مری میں ہلاکتیں: انکوائری کمیٹی کن 8 سوالوں کے جواب تلاش کرے گی؟Node ID: 634161
-
’بائیکاٹ مری‘، کیا تمام ہوٹل مالکان نے کرائے بڑھا دیے تھے؟Node ID: 634296
یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ سامنے آیا ہے بلکہ پاکستان میں ہر بڑے واقعے کے بعد ایسے ہی مطالبات سامنے آتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں سب سے پہلا جوڈیشل کمیشن ملک کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیقات کے لیے بنایا گیا تھا جبکہ ماضی قریب میں ماڈل ٹاون، اے پی ایس حملہ کیس، براڈ شیٹ جوڈیشل انکوائری کمیشن اور اسامہ ستی قتل کیس پر جوڈیشل انکوائری کروائی گئی۔ بینظیر قتل کیس کی جوڈیشل انکوائری بھی اس کی ایک مثال ہے۔
جوڈیشل انکوائری کیا ہوتی ہے؟ جوڈیشل انکوائری، عام انکوائری اور جوڈیشل کمیشن کے ذریعے انکوائری میں فرق کیا ہوتا ہے؟ اور ان کی سفارشات پر عمل درآمد کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے؟
ماہر قانون اکرام چوہدری نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’بنیادی طور پر انتطامی آرڈرز کے تحت جوڈیشل انکوائری کروائی جاتی ہے جس میں کسی بھی جوڈیشل آفیسر کو مقرر کر دیتے ہیں جو یہ دیکھتا ہے کیا ہوا؟ کیوں ہوا اور کیا ہوسکتا تھا؟ یہ انکوائری بنیادی طور پر جرائم کے واقعات پر کی جاتی ہے۔
جوڈیشل انکوائری اور کمیشن آف انکوائری میں فرق؟
کسی بھی عوامی اہمیت کے معاملے میں محکمانہ غفلت جانچنے یا حقائق کا جائزہ لینے کے لیے جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے تاہم قانون کی زبان میں اسے جوڈیشل کمیشن نہیں کہا جاتا بلکہ کمیشن آف انکوائری کہا جاتا ہے۔ جوڈیشل انکوائری صرف قابل دست اندازی جرائم میں پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت، کوتاہی یا کردار کا تعین کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔
کمیشن آف انکوائری کا قیام ایکٹ کے ذریعے عمل میں لایا جاتا ہے جو پہلے 1956 کا لاگو تھا جبکہ اب 2017 کا ایکٹ نافذالعمل ہے۔ جس کے لیے حکومت خود ہی ٹی او آرز بھی دیتی ہے جن کی روشنی میں کمیشن تحقیقات کرکے اپنی رپورٹ مرتب کرتا ہے۔ کمیشن آف انکوائری ریٹائرڈ جج، یا حکومت سمجھے تو حاضر سروس جج پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے۔ حاضر سروس جج کی خدمات حاصل کرنے کے لیے حکومت کو متعلقہ چیف جسٹس سے درخواست کرنا پڑتی ہے۔
انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت کمیشن کے ارکان کی تعداد ایک یا اس سے زائد بھی ہو سکتی ہے ارو اس میں ججز کے علاوہ بھی افراد کو شامل کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں مشہور ترین کمیشن آف انکوائری میں سقوط ڈھاکہ سے متعلق بننے والا حمودالرحمان کمیشن، جسٹس منیر کمیشن، ایبٹ آباد آپریشن کمیشن، 2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق کمیشن اور لاپتا افراد سے متعلق کمیشن شامل ہیں۔ حالیہ تاریخ میں اس کی مثال چینی کی ذخیرہ اندوزی سے متعلق انکوائری کمیشن ہے۔
ایڈووکیٹ عمر گیلانی کہتے ہیں کہ جوڈیشل انکوائری ان جرائم کے تناظر میں کی جاتی ہے جیسے پولیس کی تحویل میں کسی فرد کے ہلاک ہو جانے، کسی علاقے میں غیرمعمولی قتل و غارت جہاں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت کا تعین کرنا ہو جوڈیشل انکوائری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی معاملے کی انکوائری کمیشن آف انکوائری کے ذریعے ہی کی جا سکتی ہے۔
انتظامی انکوائری
مری کے واقعے پر حکومت نے بیوروکریسی کے افسران کی پر مشتمل کمیٹی بنائی ہے جب کہ پیر کو قومی اسمبلی میں خطاب میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی اسے گھناؤنا مذاق قرار دیا ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق کسی بھی مسئلے پر حکومت سول سروس کے افسر یا افسران کے ذریعے انکوائری کروائے تو اسے عام انکوائری، محکمانہ یا انتظامی انکوائری کہتے ہیں۔
