ریاض میں گھوڑوں کی دیکھ بھال کرنے والی امریکی ماہر خاتون
ریاض میں گھوڑوں کی دیکھ بھال کرنے والی امریکی ماہر خاتون
منگل 11 جنوری 2022 13:14
کرسٹن ہانین کی گھوڑوں میں دلچسپی بہت کم عمر سے شروع ہوئی۔ فوٹو: عرب نیوز
گھُڑ سواری کو اکثر ’بادشاہوں کا کھیل‘ کہا جاتا ہے۔ ایسے میں یہ جاننا حیران کن ہوتا ہے کہ اربوں ڈالر کی عالمی انڈسٹری کے اس مرکز میں گھوڑوں کی صحت اور آرام کو یا تو سمجھا نہیں جاتا یا نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
گھوڑوں کی امریکی ماہر کرسٹن ہانین جانسٹن نے گھوڑوں کی افزائش سے متعلق بائیوسکیورٹی کے مسئلے پر روشنی ڈالی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اصطبل کی حالت گھوڑوں کی صحت میں اہم کردار ادا کرتی ہے، کیونکہ اس جانور کے رہنے کی جگہ اگر صاف ہوگی تو کو نقصان دہ چیزوں سے محفوظ رہیں گے۔
ریاض میں رہنے والی کرسٹن ہانین کا کہنا ہے کہ گھوڑے دیگر جانوروں سے مختلف ہوتے ہیں کیونکہ ان کا نظام انہضام انتہائی حساس ہوتا ہے اور ان کی خوراک، ورزش کی روٹن اور اصطبل میں کی جانے والی دیگر دیکھ بھال میں تھوڑے سے رد و بدل سے وہ نظام بگڑ سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس میں فوری غیر مناسب بدلاؤ سے گھوڑوں میں پیٹ کے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔
’اس کا بہترین طریقہ ہے کہ اصطبل میں کام کرنے والوں کی آگاہی کے لیے پروگراموں کا انعقاد ہونا چاہیے تاکہ گھوڑوں کے سروس میں بہتری لائی جا سکے۔‘
کرسٹن ہانین کی گھوڑوں میں دلچسپی بہت کم عمر سے شروع ہوئی۔
وہ جرمنی میں رہتی تھیں اور اپنی دادی کے ساتھ گھڑ سواری کے مقابلے دیکھنے جاتی تھیں۔
تاہم انہوں نے اصطبل کی دیکھ بھال کی باقاعدہ تعلیم 2018 سے کینیڈال میں یونیورسٹی آف گوئلف میں حاصل کرنا شروع کی۔
انہیں ریاض میں کچھ چھوٹے اصطبلوں کے انتظام کا کام سونپا گیا جس کے بعد انہوں نے واٹس ایپ، انسٹاگرام، لیکچرز اور ذاتی کنسلٹیشن کے ذریعے گھوڑوں کی صحت پر آگاہی دینا شروع کی۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ مکمل طور پر اصطبل کی مینیجمنٹ کا کام نہیں ڈھونڈ رہیں کیونکہ اس میں فل ٹائم کمٹمنٹ کی درکار ہوگی۔
’شاید میں یہ اپنی ڈگری مکمل کرنے اور سرٹیفائی ہونے کے بعد کروں۔‘
کرسٹن ہانین کی توجہ گھوڑوں میں غذائی عدم توازن اور کُھروں کی چوٹ اور دیکھ بھال پر مرکوز رہتی ہے۔
ایک حالیہ کیس میں کرسٹن ہانین نے ایک اصطبل کا دورہ کیا جہاں گھوڑوں کے کھڑے ہونے کی جگہ حجم میں تین سکوائر میٹر سے کم تھی۔
ایک گھوڑا گر گیا تھا اور اسے گھڑے ہونے میں دشواری پیش آرہی تھی کیونکہ اس کا پیر پھنس گیا تھا۔ اسی گھوڑے کو تازہ ہوا کی قلت کے باعث کھانسی بھی ہورہی تھی۔
سعودی عرب میں دیگر مسائل میں ادویات کی اکثر عدم دستیابی بھی شامل ہے اور جانوروں کے ڈاکٹروں اور کلینکس کی بھی کمی ہے۔
’ملک بھر میں تین یا چار ہسپتال ہیں اور جازان جیسے علاقوں میں کوئی طبی سہولت نہیں۔ زیادہ تر کیسز میں مالکان کے پاس محدود ذرائع ہوتے ہیں اور گھوڑے مر جاتے ہیں۔ یہ کسی بھی گھوڑے کے مالک کے ساتھ ہو سکتا ہے اور ان میں سے کچھ گھوڑوں کی قیمت دو لاکھ 66 ہزار 370 ڈالر تک ہوتی ہے۔‘