’کشمیر میں جنگی جرائم‘ انڈین آرمی چیف کے خلاف لندن پولیس کو درخواست
’کشمیر میں جنگی جرائم‘ انڈین آرمی چیف کے خلاف لندن پولیس کو درخواست
بدھ 19 جنوری 2022 6:33
درخواست میں انڈین آرمی چیف اور حکومتی عہدیدار کو گرفتار کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
لندن میں موجود ایک لا فرم نے برطانوی پولیس کو درخواست دی ہے جس میں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں مبینہ جنگی جرائم میں ملوث ہونے پر انڈین آرمی چیف اور حکومتی عہدیدار کو گرفتار کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق سٹوک وائٹ نامی لا فرم نے اس حوالے سے کہا ہے کہ اس کی جانب سے میٹروپولٹن کے وار کرائم یونٹ کو دستاویزی ثبوت بھی فراہم کیے گئے ہیں کہ انڈین فوج کے سربراہ جنرل منوج میوکند نروانے اور وزیر داخلہ امیت شاہ تنظیموں کے کارکنوں، صحافیوں اور عام شہریوں کے اغوا، ٹارچر اور قتل میں کیسے ملوث ہیں۔
لا فرم کی رپورٹ ایسی 2000 شہادتوں پر مشتمل ہیں جو 2020 اور 2021 کے درمیان اکٹھی کی گئی ہیں۔
اس میں آٹھ ایسے فوجی حکام پر بھی الزامات لگائے ہیں، جن کے نام نہیں بتائے گئے تاہم ان پر انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں جنگی جرائم اور تشدد میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
رپورٹ میں ہمالیائی خطے یعنی کشمیر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’یقین کرنے کے لیے ایک مضبوط وجہ موجود ہے کہ انڈین حکام اس کے زیرانتظام جموں و کشمیر میں عام شہریوں کے خلاف جنگی جرائم اور تشدد کے مرتکب ہو رہے ہیں۔‘
لندن پولیس کو درخواست ’یونیورسل جیورسڈکشن‘ کے اصول کے تحت دی گئی ہے جو ممالک کو دنیا میں کہیں بھی انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب افراد کے خلاف مقدمہ چلانے کا اختیار دیتا ہے۔
لا فرم سٹوک وائٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اسے یقین ہے کہ یہ پہلی بار ہے کہ اس کی درخواست پر انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں مبینہ جنگی جرائم پر انڈین حکام کے خلاف قانونی قدم اٹھایا گیا ہے۔
لا فرم سٹوک وائٹ کے ڈائریکٹر ہاکن کیمز اس حوالے سے کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے کہ ان کی رپورٹ پولیس کو تحقیقات شروع کرنے پر قائل کر دے گی اور ان کو برطانیہ میں داخل ہونے پر گرفتار بھی کیا جائے گا کیونکہ کچھ انڈین حکام کے برطانیہ میں اثاثے اور دیگر روابط بھی ہیں۔
ان کے مطابق ’ہم نے پولیس کو کہا ہے کہ وہ اپنا کام پورا کرے، تحقیقات کرے اور اس کو فراہم کیے جانے شواہد کی بنیاد پر ان لوگوں کو گرفتار کرے۔ ہم ان کا احتساب چاہتے ہیں۔‘
درخواست ضیا مصطفٰی کے خاندان کی جانب سے دی گئی ہے، جو ایک عسکریت پسند تھا اور قید میں تھا، کیمز کے مطابق اس کو 2021 میں انڈین حکام نے ماورائے عدالت قتل کر دیا تھا۔
اسی طرح درخواست میں شامل دوسرے شخص محمد احسن انٹو ہیں، جن کو پچھلے ہفتے گرفتاری سے قبل تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
کشمیر پاکستان اور انڈیا کے درمیان تقسیم متنازع خطہ ہے اور یہ دونوں ممالک اس کی مکمل ملکیت کا دعویٰ رکھتے ہیں۔
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں دو دہائیوں کے دوران ہزاروں عام شہری، عسکریت پسند اور فوجی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
کشمیری اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی گروپس جو نئی دہلی کی حکمرانی کے خلاف ہیں، طویل عرصے سے انڈیا پر الزام لگا رہے ہیں کہ منظم انداز میں انہیں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
2018 میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ کی جانب سے کشمیر میں شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا جبکہ انڈین حکومت ایسے تمام الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اسے علیحدگی پسندوں کا پروپیگنڈا قرار دیتی ہے۔