Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آٹزم کے شکار بچے اور ان کی مائیں دربدر کیوں؟

 علاج کی بہتر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ایسے بچوں کی مائیں اپنے گھروں سے دربدر ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
’آپ کے بچے کو آٹزم ہے۔‘ یہ ڈاکٹر کے وہ الفاظ تھے جن نے میری زندگی کو مکمل طور پر بدل دیا۔ عفیفہ اسی پل مر گئی تھی، بس موسیٰ کی ماں زندہ ہے جس کا مقصد صرف اپنے بچے کا علاج اور اس کی بہتری ہے۔
یہ کہنا تھا ایبٹ آباد کی عفیفہ کا، جو اپنے شہر میں آٹزم کے علاج کے لیے مناسب سہولیات کے فقدان کے باعث اپنا گھربار چھوڑ کر راولپنڈی میں دو کمروں کے کرائے کے گھر کو اپنا عارضی مسکن بنانے پر مجبور ہیں۔
’موسیٰ میری پہلی اولاد ہے جس کی وجہ سے مجھے اندازہ نہ ہو سکا کہ اس کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے۔ جب اس کی چھوٹی بہن نے ایک سال کے عرصے میں بولنا شروع کر دیا تو ہمیں فکر لاحق ہوئی کہ تین سال کا ہونے کے باوجود موسیٰ کیوں نہیں بولتا۔ ایوب میڈیکل ہسپتال میں معائنہ کرایا تو ڈاکٹرز نے سب ٹھیک ہونے کی نوید دی مگر دل مطمئن نہ ہو پایا۔ پھر اسلام آباد کا رخ کیا۔ یہاں ڈاکٹرز نے بتایا کہ میرے بچے کو آٹزم نام کی بیماری ہے اور اس پر قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ ایک لاعلاج ذہنی مرض ہے۔‘
آٹزم یا آٹزم ڈس آرڈر ذہنی نشوونما سے تعلق رکھنے والی ایک پیدائشی معذوری ہے جو بچے کی بولنے، لوگوں سے میل ملاپ کی اس کی صلاحیتوں اور رویوں کو متاثر کرتی ہے۔ آٹزم کا تعلق کچھ طبی کیفیتوں سے تو ہو سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے نہ تو ابھی تک آٹزم کی اصل وجہ اور نہ ہی اس کا کوئی حتمی علاج دریافت ہو سکا ہے۔ ہاں مگر مختلف تھراپیز کی مدد سے ان بچوں کے رویوں میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
عفیفہ کی طرح نادرہ بھی ایک ایسی ہی ماں ہے جس کے بچے کو آٹزم کا مرض ہے اور وہ صوبہ پنجاب کے شہر بہاولپور میں واقع اپنے گھر بار سے کٹ کر اسلام آباد میں اپنے بچے کے علاج کی خاطر سکونت پذیر ہے۔  نادرہ کی بھی یہ پہلی اولاد ہے۔ وہ اس بیماری کے متعلق آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بچے کا بروقت علاج نہ کروا پائی۔
آنکھوں میں بےبسی کے آنسو لیے، نادرہ کا کہنا تھا کہ ’مجھے اس بیماری کا کچھ علم نہ تھا۔ میری ساس کے کہنے پر میں اسے بہت سے مزاروں پر لے کر گئی مگر کوئی افاقہ نہ ہوا، پھر میرے شوہر کو کسی نے اسلام آباد لے جانے کا مشورہ دیا اور یہاں ڈاکٹر کو دکھایا۔ اب میرے حمزہ کی تھراپی چل رہی ہے جس سے اس میں تھوڑی بہتری آ رہی ہے۔‘

آٹزم یا آٹزم ڈس آرڈر ذہنی نشوونما سے تعلق رکھنے والی ایک پیدائشی معذوری ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

طبی ماہرین کے مطابق ماضی کی نسبت اب اس بیماری میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ مگر حکومت اور صحت کے شعبے سے منسلک اداروں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے نہ تو پاکستان میں آٹزم کے شکار بچوں کے اعداد و شمار کا کوئی اندازہ ہے اور نہ ہی اسلام آباد کے سرکاری ہسپتالوں میں تھراپیز کی خاطرخوا سہولیات موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین چند محدود نجی سنٹرز کی طرف رجوع کرنے پرمجبور ہیں جو کہ بہت مہنگے ہیں۔ یہ سنٹرز55  سے 60 ہزار روپے ہر ماہ فیس وصول کرتے ہیں۔
نادرہ اور عفیفہ کی کہانی ایک نجی آٹزم تھراپی سنٹر کے ویٹنگ روم میں بیٹھی اور بہت سی ماؤں کی طرح ہی تھی جو کہ پاکستان کے مختلف حصوں سے اپنے گھر، عزیز و اقارب اور اپنی نارمل زندگیاں چھوڑ کر اسلام آباد اور راولپنڈی کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہیں تاکہ ان کے بچے شفایاب ہو سکیں جو کہ ان کے اپنے علاقوں میں سرکاری اور نجی سطح پر کہیں دستیاب نہیں۔ یہ مجبور مائیں مختلف شہروں اور ممالک سے اسلام آباد آئی ہوئی ہیں جن میں ایبٹ آباد، بہاولپور، لاہور،کھیوڑہ، پشاور، کویت اور عمان شامل ہیں۔
علاج کی بہتر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف یہ مائیں اپنے گھروں سے دربدر ہیں، بلکہ آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ان کو اپنے بچوں کی وجہ سے بہت کچھ سہنا بھی پڑتا ہے۔ کسی کو گناہوں کی وجہ سے اللہ کا عذاب کہا جاتا ہے تو کسی کو رشتہ دار اپنے گھر ان معصوم بچوں کو لانے سے منع کر دیتے ہیں کہ ہماری بہو امید سے ہے اور آپ کے بچے کا برا اثر پڑے گا۔
آٹزم پر کام کرنے والی ایک این جی او، ’آٹزم سوسائٹی آف پاکستان‘ کے مطابق ان کے پاس بھی بیماری کے کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں۔ یہ سوسائٹی بہت سے غریب والدین کو کم فیس پر سنٹر میں داخلہ دیتی ہے اور تشخیص میں بھی معاونت فراہم کرتی ہے۔
صوفیہ بخاری جو اس این جی او میں بطور کلینیکل سائیکاٹرسٹ اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں، کے اپنے دو بچے بھی اسی مرض کا شکار ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اس مرض میں بہت اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے مگر آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔
 صوفیہ کے بقول ’اس مرض کے بارے میں آگاہی بہت سے بچوں کا بروقت علاج شروع کرنے کا سبب بن سکتی ہے اور یوں ان کی حالت میں سدھار لایا جا سکتا ہے۔‘

اس مرض میں بہت اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے مگر آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔(فائل فوٹو: اے ایف پی)

سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی سہولتوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ کچھ ہسپتالوں میں یہ سہولیات موجود ہیں مگران کا کوئی فاءدہ نہیں ہوتا۔
’وہاں ہر آٹسٹک بچے کو ایک ہی کلاس روم میں ٹریٹ کیا جاتا ہے جبکہ ان بچوں کو انفرادی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ ہر بچے کی ذہنی حالت اور ضرورت دوسرے بچے سے مختلف ہوتی ہے۔ ان تھراپیز کے لیے ماہر طبی عملہ بھی درکار ہوتا ہے۔‘
اس حوالے سے وفاقی وزارت صحت سے جب رابطہ کیا گیا تو ایک اعلیٰ افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ سرکاری سطح پر اس مرض کے علاج پر کوئی کام نہیں ہو رہا اورانہوں نے اس کے اعداد و شمار کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جن سرکاری ہسپتالوں میں بھی ان بچوں کو ٹریٹ کیا جا رہا ہے، وہ ان بچوں کو فائدہ نہیں الٹا نقصان دیتا ہے کیوں کہ ان کو باقی ذہنی مریض بچوں کے ساتھ ہی ٹریٹ کیا جاتا ہے جو ان ننھے ذہنوں کے لیےنقصان دہ ہے۔‘

 والدین چند محدود نجی سنٹرز کی طرف رجوع کرنے پرمجبور ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

افسوس کہ اسلام آباد کے نجی سنٹرز میں بیٹھی مائیں ان سوالوں کے جوابات کی منتظر ہیں، وہ اس انتظار میں ہیں کہ کب ان کے شہروں میں یہ سہولیات میسر ہوں گی اورانہیں اپنے بچوں کےعلاج معالجےکے لیے اپنا شہر چھوڑ کر یوں دربدر نہیں ہونا پڑے گا۔

شیئر: