متنازع علاقوں میں ثقافتی ورثے کا تحفظ، سعودی عرب کی تین کروڑ ڈالر کی امداد
متنازع علاقوں میں ثقافتی ورثے کا تحفظ، سعودی عرب کی تین کروڑ ڈالر کی امداد
منگل 1 فروری 2022 10:32
رقم کا اعلان پیرس میں ہونے والی کانفرنس کے دوران کیا گیا۔ (فوٹو: رائل کمیشن برائے العلا)
سعودی حکام نے متنازع علاقوں میں ثقافتی ورثے کے تحفظ کی غرض سے ایک بین الاقوامی تنظیم کے لیے تین کروڑ ڈالر کی امدادی رقم کا اعلان کیا ہے۔
عرب نیوز نے سعودی پریس ایجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ مملکت کے وزیر برائے ثقافت شہزادہ بدر بن عبداللہ بن فرحان نے پیر کو انٹرنیشنل الائنس فار پروٹیکشن آف ہیریٹیج (الف) کے لیے رقم کا اعلان ادارے کے ڈونرز کی پیرس میں ہونے والی کانفرنس کے دوران کیا۔
وزیر ثقافت نے الف کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی کوششوں کو سراہا، جن کے تحت تنازعات کی وجہ سے خطرے سے دو چار ثقافتی ورثے کی حفاظت کی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ثقافت مملکت کے وژن 2030 کے ترقیاتی منصوبے کا اہم جزو ہے اور ان کا ملک ثقافتی ورثے کو خطرات سے بچانے کے لیے کوشاں ہے۔‘
وزیر ثقافت کا کہنا تھا کہ ’ہم ایسے اقدامات کے لیے بھی کام کر رہے ہیں جو ہمارے امیر اور متنوع ملک اور پوری دنیا کے ورثے اور ثقافت کے تحفظ کو بڑھائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس منصوبے میں ماہرین کی تربیت، ثقافت کے شعبے میں پیشہ ورانہ نیٹ ورکس کو بااختیار بنانا اور اہم بین الاقوامی روابط قائم کرنا شامل ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ مملکت نے 2020 میں جی 20 کی اپنی صدارت کے دوران ثقافت پر روشنی ڈالی تھی تاکہ پائیدار ترقی کے لیے ورثے کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔
اسی لیے مملکت کو یونیسکو نے 2021 سے 2023 تک کی ورلڈ ہیریٹیج کمیٹی کے لیے نائب سربراہ کے طور پر منتخب کیا ہے۔
سعودی وزیر ثقافت نے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے مملکت کے کردار پر بات کی۔ فوٹو: رائل کمیشن برائے العلا
وزیر ثقافت کے مطابق ’ہماری اجتماعی کوششیں امن کی تعمیر، سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے اور ثقافتی تنوع کے بارے میں گہرائی سے آگاہی فراہم کرنے کے لیے ورثے کے کردار کو مضبوط بنانے کے لیے اہم ہیں۔‘
فرانسیسی وزیر خارجہ جین ایو لے ڈریئن کا کہنا تھا ’الف فاؤنڈیشن تباہ کن صورتحال کا ایک اجتماعی ردِعمل ہے جس نے دنیا کے دیگر حصوں کے طرح عراق میں بھی ان کاموں کو ختم کرنے کے خطرے سے دوچار کیا ہے جن سے نسلیں جڑی ہیں، جو معاشروں کے تنوع کی گواہی دیتے ہیں اور لوگوں اور مذاہب کے درمیان مکالمے کی دعوت دیتے ہیں۔‘