Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسائل حل کرنے کیلئے ذہانت استعمال کرنی چاہئے، ڈاکٹر ناجیہ

پھل و سبزیاں ضرور کھائیں لیکن انکے چھلکے چوپایوں کیلئے چھوڑ دیں،’’ ہوا کے دوش‘‘ پر گفتگو

زینت شکیل۔جدہ

انسانی زندگی کو مالک حقیقی نے علم کے بغیر مکمل نہیں جانا ، اسی لئے عمر بھر کیلئے اسکا رشتہ آپس میں جوڑ دیا۔ تعلیم دو طرح سے حاصل کی جاسکتی ہے ،ایک وہ جوصاحبانِ علم نے بتا دیا جو نسل در نسل تحریری صورت میں موجود ہے۔ اسکول و مکتب میں پڑھایا گیا اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ دوسری صورت وہ ہے جس میں انسان کے اپنے طرز عمل سے اوراس کی زبان سے بیان ہونے والی علم کی باتیں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی آئیں۔یہ علم کی وہ قسم ہے کہ جس کیلئے کسی کاغذ کی ضرورت پڑتی ہے نہ قلم کی۔ ’’ہوا کے دوش‘‘پراردونیوزکی ملاقات ڈاکٹر ناجیہ تبسم اور ان کے شوہر نامدارثاقب جاوید سے ہوئی ۔ ڈاکٹر ناجیہ تبسم چونکہ میڈیکل کالج میں معلمہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ انسان ہر عمر میں علم حاصل کرتا اور سیکھتا رہتا ہے لیکن پڑھنا اور پڑھانا دونوں ہی الگ الگ باتیں ہیں۔ جہاں تک تعلیم حاصل کرنے کی بات ہے تو اسکول و کالج اور پھر یونیورسٹی کی تعلیم درجہ بدرجہ حاصل کرتے چلے جانے میں2 باتیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں، جن طلباء وطالبات کو شوق ہو اور ذہین بھی ہوں تووہ بآسانی تعلیمی مدارج طے کرتے چلے جاتے ہیں لیکن وہ طلباء و طالبات جو بہت زیادہ ذہین نہیں سمجھے جاتے،وہ زیادہ محنت کرکے اسی ترقی پر جاپہنچتے ہیں۔پڑھائی کے دوران ایسا ہوتا ہے کہ ہم روانی میں اکثر نکات چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ انہیں یاد کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن پڑھاتے وقت چونکہ ہر نوعیت کے سوالات پوچھے جاتے ہیں ۔

اسی لئے پڑھنے کے مقابلے میں پڑھانا زیادہ مشکل مرحلہ ہے ۔ اس کے لئے اساتذہ کو اپنے مضمون میں بھرپور محنت کرنی پڑتی ہے۔ کسی بھی درجے کے طالب علم کو محض کاغذی سوالنامے کی بناء پر پرکھا نہیں جاسکتا۔ کسی میں بہترین لکھنے اور لکھ کر سمجھانے کی صلاحیت دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے لیکن لوگوں سے میل ملاپ مشکل ہوتا ہے۔اپنی بات دوسروں کو یا اگر ڈاکٹر ہیں تو اپنے مریض کو نہ سمجھا سکیں تو اسکا زیادہ فائدہ نہیں پہنچ سکے گا ۔ ڈاکٹر ناجیہ سے جب والدین کے فرائض پر بات چلی تو بچوں کی تربیت میں ماں کے کردار کے بارے میں بات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ وقت کا درست استعمال کرنا سیکھ جائیں تو پھر اپنے ہر کام کیلئے وقت نکال سکتے ہیں۔ کسی بھی چیز کو مسئلہ نہیں بنانا چاہئے بلکہ مسائل کو حل کرنے کیلئے ذہانت کا استعمال کرنا چاہئے۔ زندگی توازن کے ساتھ گزارنی چاہئے۔کسی نہ کسی درجے میں خود بھی تعلیمی سلسلہ قائم رکھنا چاہئے اور دوسروں کو بھی سکھانا چاہئے۔ ایک سوال پر ڈاکٹر ناجیہ نے کہا کہ والدین تو سب کو ہی عزیز ہوتے ہیں لیکن میرے والدین نے ہمیشہ وقت کی قدر کرنا سکھایا۔ والدہ چونکہ ہاؤس وائف تھیں تو ہمیں گھریلو کام کاج کی طرف متوجہ کرتی تھیں۔ انکا موقف تھا کہ گھر میں خواہ10 نوکر بھی کیوں نہ ہوں ، خاتون خانہ کوکھانا خود ہی پکانا چاہئے۔

اس سے ساراخاندان خوشی حاصل کرتا ہے۔ ہمارے گھر پر ہر قسم کا کھانا تیار کیا جاتا تھالیکن وہ سلسلہ نہیں تھا جو آجکل مارننگ شوز والوں نے بنا دیا ہے۔ دنیا کے ان ممالک کے کھانے جودیکھنے سے ہی عجیب و غریب لگتے ہیں۔ ان پروگراموں میں حد تو یہ ہے کہ پھلوں کے چھلکوں کا سالن اور مولی کے پتوں کی بھجیابنانا بھی سکھایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ کوئی چیز ضائع نہ کریں بلکہ آپ چھلکوں کا بھی کھانا بنائیں اور کھائیں۔ کوئی غور کرے تو معلوم ہوجائے گا کہ پھل و سبزیاں ضرور کھانی چاہئیں لیکن انکے چھلکے چوپایوں کیلئے چھوڑ دینے چاہئیں۔ یہ حیوانات کی خوراک ہے۔ شادی کے بعد سعودی عرب شفٹ ہونے کے بارے میں ڈاکٹر ناجیہ نے کہا کہ ہر مسلمان کی طرح میری بھی خواہش تھی کہ عمرہ و حج کی ادائیگی کروں اور یہ موقع اتنی آسانی سے مجھے ملا کہ مکہ مکرمہ میں کئی سال رہنا ہوا اور کئی بار یہ سعادت حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر کی حیثیت سے میں پریکٹس میں لوگوں کو یہ بات بتاتی رہتی تھی کہ صحت و تندرستی، متوازن خوراک درحقیقت صفائی اور محنت کرنے سے ہی ممکن بنانا آسان ہے۔ روزانہ نہیں تو ہفتے میں دو بار چہل قدمی ضرور کرنی چاہئے۔ جناب ثاقب جاوید، آئی ٹی میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد بزنس کی جانب متوجہ ہوئے اور اب ان کی سافٹ ویئر کمپنی لوگوں کی آسانی کے لئے متعددتحقیقی کام کررہی ہے۔محترم ثاقب جاوید نے بتایا کہ انکی اہلیہ وقت کا درست استعمال کرتی ہیں۔ آج کا کام کل پر نہیں چھوڑتیں۔ محنت کو شعار بنائے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر کام وقت پر ہوجاتا ہے۔ہمارے صاحبزادے مصطفی ثاقب اور صاحبزادی علیٰ ثاقب اسکول شوق سے جاتے ہیں۔

وقت کو منظم رکھنے کیلئے ناہید نے بچوں کا شیڈول بنا دیا ہے ۔اسی کے حساب سے پڑھائی ، آرام ، گیمز اور ٹیوشن، پھر قاری صاحب کا سبق یاد کرنا اور سنانا، اس طرح بچے مصروف رہتے ہیں اور وقت پر سارے کام بھی ہوتے رہتے ہیں۔ویک اینڈ پر چونکہ سب کا ہی پروگرام بن جاتا ہے چنانچہ آؤٹنگ کیلئے جاتے ہیں۔ بچوں کی فرمائش پر اکثر ان کے پسندیدہ پلے لینڈ بھی جانا ہوتا ہے۔ شاعری کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا کہ شعرائے کرام میں غالب اور فیض احمد فیض پسند ہیں ۔ ڈاکٹر ناجیہ کو غالب اور اقبال کی شاعری اپیل کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا ہے کہ ثاقب صاحب چونکہ محنتی ہیں ، اس لئے انکا بزنس کم وقت میں بہت ترقی کرگیا اور بہترین لوگوں کی معاونت نے اچھے نتائج دیئے ہیں۔ جہاں ثاقب صاحب خود دوسروں کا خیال رکھتے ہیں، ہمدرد طبیعت کے دھیمے مزاج والی شخصیت ہیں۔ اسی طرح انہیں لوگ بھی ایماندار اور خیال کرنے والے ہی ملے ہیں۔

شیئر: