Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنگ ہی کیوں؟

جبلت انسان کو بتاتی ہے کہ اگر اس نے پہل نہیں کی تو دشمن پہل کرے گا (فوٹو اے ایف پی)
دنیا کے کسی بھی خطے میں لکھی گئی تاریخ کی کوئی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں، اس میں سب سے زیادہ مواد جنگوں کے متعلق ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ حالات حاضرہ میں بھی خبرجنگ کی بنتی ہے۔ امن تو کوئی خبر ہی نہیں۔
ان دنوں بھی جنگ خبروں کا سب سے بڑا موضوع ہے۔ کافی عرصے سے خطرہ ظاہرکیا جاتا تھا کہ روس یوکرین پر حملہ کر دے گا، آج وہ خطرہ حقیقت بن گیا اور روس کی فوجیں یوکرین میں داخل ہو گئیں۔
اس جنگ کے اسباب بھی تقریباً وہی ہیں جو اکثر جنگوں کے ہوتے ہیں۔ بڑے ملک کا چھوٹے ملک کو فتح کر کے اس کا علاقہ ہتھیا لینے، یا کم از کم اسے اپنا مطیع بنانے کی کوشش۔ لیکن چھوٹے ملک کا بھی جنگ چھڑنے میں کردار ہوتا ہے۔ وہ اگر چپ چاپ بڑے ملک کے مطالبات مان لے تو جنگ کی نوبت کیوں آئے۔
اسی لیے دو ملکوں میں جنگ کے بادل منڈلاتے ہیں تو دوسرے ملک دونوں فریقوں کو برداشت سے کام لے کر مسائل مذاکرات سے حل کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ یعنی مذاکرات کرکے چھوٹا ملک بڑے ملک کے کچھ مطالبات مان لے اور اپنی جان چھڑا لے۔
جنگ کوئی کرکٹ کا کھیل نہیں ہوتا کہ چند اوور جیسے تیسے گزار لیں۔ جیتے تو اچھا ہے، ہاریں بھی تو کوئی بات نہیں۔ میچ فیس تو کہیں گئی نہیں۔ جنگ میں تو آتش و آہن کی بارش ہوتی ہے۔ جسموں کے چھتیڑے اڑتے ہیں۔ بچے یتیم ہوتے ہیں اور بڑوں کی اولاد نہیں رہتی۔ جنگ اپنے ساتھ معاشی اور سماجی تباہی لاتی ہے۔ بھوک، بیماریاں، غربت، بے روزگاری یہ سب جنگ کے حواری ہیں اور اسے کے پیچھے پیچھے آتے ہیں۔ جنگ میں نہ صرف ہارنے والا بلکہ جیتنے والا بھی تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔
اس سب کے با وجود قومیں جنگ میں کیوں کودتی ہیں؟ اس سوال کا جواب علم بشریات کچھ یوں دیتا ہے:
آج کا انسان حیاتیاتی طور پر تقریباً ویسا ہی ہے جیسا آج سے پچاس ساٹھ ہزار سال قبل ہوتا تھا۔ اس عرصے کے دوران اس کی جسمانی ساخت اور ذہانت میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اس کے وہ رویے جو لاکھوں سال کے حیاتیاتی ارتقا کے نتیجے میں اس کے ڈی این اے میں پیوست ہوچکے ہیں، اسی طرح موجود ہیں۔
ان میں سے ایک رویہ اپنے خاندان اور گروہ (band)  کی بقا کی حفاظت کا ہے۔ انسان کے سماجی ارتقا کے نتیجے میں band کی جگہ قبیلے نے لی تو فرد اسی جبلت کے تحت اپنے قبیلے کے بقا کے لیے لڑنے لگا۔ پھر قبیلوں کا دور بھی ختم ہوا اور ریاست نے اس کی جگہ لے لی۔ اب فرد اسی جبلت کے تحت ریاست کے لیے لڑنے لگا۔ اب دنیا کی بڑی بڑی قومی ریاستوں میں کروڑوں بلکہ اربوں لوگ رہتے ہیں لیکن ان کے رہنماء اور افراد میں وہی قدیم جبلت بدستور موجود ہے، جو اسے دوسرے band پر حملہ کرکے اسے قتل کرنے اور اس کے مال و اسباب پر قبضہ کرنے پر اکساتا ہے۔
یہی جبلت اسے بتاتی ہے کہ اگر اس نے پہل نہیں کی تو دشمن پہل کرے گا۔ یہی جبلت سپاہی کو اکساتی ہے کہ وہ دشمن کے سپاہی کو قتل کرے، حالانکہ ان کے درمیاں ذاتی دشمنی کی کوئی وجہ موجود نہیں۔ ایسا کرتے ہوئے سپاہی اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتا۔ اسے یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے کی صورت میں اس کی جان جا سکتی ہے لیکن وہ آگے جاتا ہے، کیونکہ اس وقت وہ عقل و شعور سے زیادہ جبلت کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔

اسی جارحانہ جبلت کے تحت انسان ہمیشہ لڑتے رہے ہیں (فوٹو اے ایف پی)

ایسی صورت میں فوجی دستے کا کمانڈر، سپہ سالار اور سربراہ مملکت سب پچاس ہزار سال پہلے کے ایک بینڈ لیڈر کے طور پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔
اسی جارحانہ جبلت کے تحت انسان ہمیشہ لڑتے رہے ہیں۔ کبھی گروہوں کی شکل میں، کبھی قبیلوں تو کبھی قوموں کی شکل میں۔ وہ پتھروں سے لڑا، نیزوں اور تلواروں سے لڑا، گھوڑے پر سوار ہو کر لڑا۔ خون کی ندیاں بہا دیں، کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کیے اور ملکوں کے ملک ویراں کر دیے، لیکن جنگ ختم نہیں ہوئی۔
یہ درست ہے کہ انسان صرف جبلتوں کا نام نہیں۔ وہ عقل و شعور بھی رکھتا ہے، جن کی وجہ سے اسے فائدے اور نقصان کا ادراک ہوتا ہے۔ بہت دفعہ عقل جبلت پر غالب آ کر اسے تشدد اور جارحیت سے روکتی ہے۔ اسی عقل کی برکت سے انسانوں نے ایک دوسرے کی مکمل نسل کُشی نہیں کی اور آج ہم روئے زمین پر موجود ہیں۔
لیکن عقل نے صرف جبلتوں کو لگام ہی نہیں دی ہے بلکہ اس نے کچھ مسائل پیدا بھی کیے ہیں۔ عقل کا ایک نتیجہ کلچر ہے، یعنی ہم ایک دوسرے سے سیکھ کر اپنے علم اور مہارتوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں پتھروں سے جنگ کرنے والا انسان لکڑی کے نیزے اور کمان بنانے لگا، جو زیادہ مہلک ثابت ہوئے۔ پھر اس نے دھاتوں کا استعمال سیکھا جن سے مزید خطرناک ہتھیار بننے لگے۔

کیا اب موقع نہیں کہ انسان عقل و شعور کو کام میں لا کر اپنی وحشیانہ جبلتوں کو لگام دے؟ (فوٹو اے ایف پی)

بارود ایجاد ہوا، بندوقیں، توپیں، ٹینک، ہوائی جہاز، بم، میزائل، آبدوزیں یہ سب سیکھنے کی وجہ سے وجود میں آئیں۔ ان کی وجہ سے جنگ بہت مہلک ہو گئی۔ ان سب پر مستزاد نیوکلیئر ہتھیار ایجاد ہوئے جن کی ہلاکت خیزی ہمارے وہم و گمان سے زیادہ ہے۔ اب دنیا میں اس قدر نیوکلیئر ہتھیار جمع ہو چکے ہیں کہ ان کے استعمال ہونے کی صورت میں دنیا سے نہ صرف انسان بلکہ ہر قسم کی زندگی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اب دنیا کی تباہی اب چند لمحوں کی بات ہے۔ کیونکہ چند وحشی سرداروں کے ہاتھ ایسے آلات آ گئے ہیں جو ساری دنیا کو زندگی سے خالی کر سکتے ہیں۔
کیا اب موقع نہیں کہ انسان عقل و شعور کو کام میں لا کر اپنی وحشیانہ جبلتوں کو لگام دے؟

شیئر: