Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان کی شہریوں پر نئی پابندیاں ’کوئی بلاجواز ملک نہیں چھوڑے گا‘

افغانستان میں طالبان نے شہریوں پر نئی پابندیاں عائد کرتے ہوئے انہیں ملک چھوڑنے سے روک کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اتوار کو رات گئے نئی سفری پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان افراد کو روکا جا رہا ہے جن کے پاس ملک چھوڑنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
دیگر ممالک یا غیرسرکاری تنظیموں کی جانب سے کیے جانے والے انخلا کے انتظامات پر بھی پابندی عائد کی ہے جبکہ انفرادی طور پر جانے والے افراد یا خاندانوں کو ملک چھوڑنے کا جواز بتانا پڑے گا ورنہ امیگریشن کے افسران انہیں ایئر پورٹ پر ہی روک دیں گے۔ 
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ افغان خواتین بھی کسی مرد رشتہ دار کے بغیر بیرون ملک سفر نہیں کر سکیں گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر خواتین بیرون ملک سفر کرنا چاہتی ہیں تو ان کے ساتھ مرد نگہبان ہونا چاہیے، شریعتِ اسلام کا قانون بھی یہی کہتا ہے۔
ان نئی سفری پابندیوں کے بعد سے امریکی فوج یا مغربی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے والے ہزاروں افغان شہریوں کا مستقبل بے یقینی کا شکار ہو گیا ہے جنہیں کسی دوسرے ملک میں پناہ لینے کی امید تھی۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال غیرملکی افواج کے انخلا کے دوران 31 اگست تک ایک لاکھ 20 ہزار افغان اور دہری شہریت رکھنے والے افراد کو افغانستان سے نکلنے میں مدد فراہم کی گئی تھی۔ تاہم ابھی بھی ہزاروں کی تعداد میں افغان شہری ملک سے فرار کے موقعے کی تلاش میں ہیں جو ماضی میں کسی نہ کسی طرح غیرملکی ادارے کے ساتھ وابستہ رہ چکے ہیں۔

طالبان نے خواتین کے اکیلے سفر پر پابندی عائد کی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ متعدد ایسی رپورٹس موصول ہوئی ہیں جن کے مطابق ہزاروں افغان بیرون ممالک میں بہت برے حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سفری پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور سفری پابندیاں تب تک عائد رہیں گی جب تک یقین دہانی نہ کرائی جائے کہ بیرون ملک جانے والے افغانوں کی زندگیوں کو خطرہ نہیں ہوگا۔
انہوں نے واضح کیا کہ طالبان کی حکومت نے کبھی بھی یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ انخلا کا عمل غیرمعینہ مدت تک جاری رہے گا۔
’ابتدائی طور پر ہم نے کہا تھا کہ امریکہ ان افراد کو لے کر جا سکتا ہے جن کے متعلق انہیں تشویش ہے لیکن یہ وعدہ ہمیشہ برقرار تو نہیں رہے گا۔‘
اعلان سے قبل اسی روز طالبان نے دارالحکومت کابل سمیت ملک کے مختلف شہروں میں اغواکاروں، چوروں اور ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ہے۔
پیر کو بھی طالبان جنگجوؤں کی جانب سے گھر گھر جا کر ان افراد کی تلاش جاری رہی جو مبینہ طور پر حالیہ دنوں میں چوریوں اور اغوا میں ملوث تھے۔
طالبان کے اس کلیئرنگ آپریشن سے شہریوں میں خوف پیدا ہو گیا ہے بالخصوص وہ شہری جو امریکی یا دیگر غیرملکی افواج کے ساتھ کام کر چکے تھے۔

طالبان نے ملک بھر میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق سرچ آپریشن کے دوران دو اغوا شدہ افراد سمیت دو نوجوان لڑکیوں کو بھی بازیاب کروایا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سرچ آپریشن کے دوران ملنے والا ہلکہ اور بھاری اسلحہ، دھماکہ خیز مواد، ریڈیو کا سامان، ڈرونز اور سرکاری گاڑیاں اپنے قبضے میں لے لی ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ نو اغوا کاروں، 53 پیشہ ور چور اور چھ ایسے افراد کو بھی حراست میں لیا گیا ہے جو مبینہ طور پر داعش کا حصہ ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ’ہم کابل کے رہائشیوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ یہ آپریشن عام لوگوں کے خلاف نہیں ہے۔ شہریوں کو اعتماد ہونا چاہیے کہ احتیاط برتتے ہوئے سرچ (آپریشن) جاری ہے۔‘

شیئر: