دنیابھرمیں آبادی کو کم کرنا اور کارخانوں کو خوب بڑھاناایک ایسا رویہ ہے جس سے جنگلاتی حیات کم سے کم تر ہوتی چلی جارہی ہے
ڈاکٹر ساجد خاکوانی ۔ اسلام آباد
ﷲتعالیٰ نے اس زمین کودرختوں کی سرسبزی وشادابی سے مزین کیاہے اورجنگلوں کی ہریالی سے اس کرہ ارض کو حسن و جمال بخشاہے اورقرآن مجید میں اس کاذکرکرتے ہوئے فرمایا: ’’بھلاوہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیداکیا اور تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایااور پھراس کے ذریعے خوشنما باغات(جنگلات)اگائے جن کے درختوں کااگانا تمہارے بس میں نہ تھا؟؟کیاﷲتعالیٰ کے سوا کوئی دوسرارب بھی(ان کاموں میں شریک)ہے؟؟(نہیں)بلکہ یہی لوگ راہ راست سے ہٹ کرچلتے ہیں۔‘‘(النمل60)۔ چنانچہ یہ درخت بھی اپنے وجود کے شکرانے کے طورپر ﷲتعالیٰ کے سامنے سربسجودہوتے اور سجدہ کرتے ہوئے مراسمِ عبودیت بجالاتے ہیں،جس پر قرآن مجید نے کہا : ’’ستارے اور درخت (سب)ﷲتعالیٰ کے سامنے سجدہ ریزہیں۔‘‘(الرحمٰن6)۔ سورہ حج،آیت18 میں ﷲتعالیٰ فرماتاہے: ’’کیاآپ دیکھتے نہیں کہ ﷲتعالیٰ کے آگے سربسجودہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں ،سورج چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان(بھی)۔‘‘ اسی طرح سورۃ لقمان،آیت27 میں ﷲتعالیٰ نے اپنی شان خداوندی کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا: ’’زمین میں جتنے درخت ہیں وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر(دوات بن جائیں)جسے7 مزید سمندر روشنائی فراہم کریں تب بھی ﷲتعالیٰ کی نشانیاں(لکھتے ہوئے)ختم نہ ہوں،بے شک ﷲتعالیٰ زبردست اور حکیم ہے۔‘‘ سورۃ یٰسین،آیت80 میں ﷲتعالیٰ نے درختوں سے ایندھن کاکام لیتے ہوئے کہا: ’’وہی ہے جس نے تمہارے لئے ہرے بھرے درخت سے آگ پیداکردی اور تم اس سے اپنے چولھے روشن کرتے ہو۔‘‘
درختوں کے بابرکت ہونے کااندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ ﷲتعالیٰ نے اپنے نور کی تفہیم کے لئے ایک مقدس درخت کی مثال دی اور سورۃ نور،آیت 35میں فرمایا : ’’ﷲتعالیٰ آسمانوں اور زمین کانورہے،اس کی نورکی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں رکھا چراغ ہو،چراغ فانوس میں دھراہو،فانوس کاحال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتاہوا ستارہ ،اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیاجاتاہوجو نہ شرقی ہو نہ غربی ،جس کاتیل آپ ہی آپ بھڑکاپڑتاہو۔‘‘ کتنے ہی انبیاء علیہم السلام ہیں جن کی حالات زندگی میں درختوں کا کثرت سے ذکر ملتاہے۔سب انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو جب جنت میں جگہ ملی تو ﷲ تعالیٰ نے حکم دیا: ’’پھرہم نے (حضرت) آدم (علیہ السلام) سے کہا کہ آپ اور آپ کی زوجہ دونوں جنت میں رہواوریہاں بفراغت جوچاہو کھاؤ مگراِس درخت کارخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہوگے۔‘‘(البقرہ35)۔ پھرشیطان نے ان پر حملہ کیا اور کہا: ’’پھرشیطان نے ان کو بہکایاتاکہ ان کی شرمگاہیں جوایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں ،ان کے سامنے کھول دے،شیطان نے ان سے کہا :تمہارے رب نے تمہیں جواس درخت سے روکاہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤیاتمہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہوجائے ،اور اس نے قسم کھاکران سے کہا کہ میں تمہاراسچاخیرخواہ ہوں،اس طرح دھوکادے کر رفتہ رفتہ دونوں کواپنے ڈھب پر لے آیا،آخرکار جب انہوں نے اس درخت کامزاچکھاتوان کے سترایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اوروہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے ،تب ان کے رب نے انہیں پکارا کہ میں نے تمہیں اس درخت سے روکانہ تھا اور نہ کہاتھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘(الاَعراف22-20)۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حیات طیبہ میں نبوت ملنے کا واقعہ ایک درخت سے منسوب ہے جسے قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان کیاہے: ’’(حضرت موسیٰ علیہ السلام)وہاں(کوہ طورپر)پہنچے تووادی کے داہنے کنارے پر مبارک خطے میں ایک درخت سے پکاراگیاکہ اے موسیٰ( علیہ السلام) !میں اﷲتعالیٰ ہوں سارے جہانوں کارب‘‘(القصص30)۔
حضرت یونس علیہ السلام جب مچھلی کے پیٹ سے برآمد ہوئے تو: ’’آخرکار ہم نے انہیں بڑی ہی سقیم حالت میں ایک چٹیل زمین پر پھینک دیااور ان پرایک بیل داردرخت اگادیا‘‘(الصفات 146,145)۔ قرآن مجید نے محسن انسانیت کی سیرۃ طیبہ میں بھی ایک درخت کاذکرکیاہے اور کہا : ’’ﷲتعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیاجب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کررہے تھے ،ان کے دلوں کاحال ﷲتعالیٰ کو معلوم تھا اس لئے اس نے ان پرسکینت نازل کی اوران کوانعام میں قریبی فتح بخشی۔‘‘(الفتح18)۔
آپ چونکہ رحمۃ اللعالمین ہیں اس لئے آپنے رات کے اوقات میں درختوں کی کانٹ چھانٹ سے منع فرمایا ہے اور ارشادفرمایا کہ یہ درختوں پودوں کے آرام کاوقت ہوتاہے۔ ﷲتعالیٰ نے ایک اچھی اور عمدہ بات کو اچھے درخت سے تشبیہ دیتے ہوئے قرآن مجید کی سورۃ ابراہیم،آیت25,24 میں فرمایا: ’’کیاتم دیکھتے نہیں ہو ﷲتعالیٰ نے کلمۃ الطیبہ کوکس چیزسے مثال دی ہے؟اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کادرخت جس کی جڑیں زمین میں گہری جمی ہوئی ہیں اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں،ہرآن وہ اپنے رب کے حکم سے پھل دے رہاہے،یہ مثالیں ﷲتعالیٰ اس لئے دیتاہے کہ لوگ اس سے سبق حاصل کریں۔‘‘ اس کے مقابلے میں بری بات کی مثال بھی ایک درخت سے ہی دی اور اسی سورۃ میں فرمایا: ’’اور کلمۃ خبیثہ کی مثال ایک بدذات درخت کی سی ہے جوزمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکاجاتاہے ،اس کیلئے کوئی استحکام نہیں۔ ‘‘(ابراہیم26)۔
اس دنیاکے بعد آخرت کی زندگی میں بھی درختوں کی مثالیں بھری ہیں۔دوزخیوں کے لئے جس کانٹے داردرخت سے کھانے کاانتظام ہوگا اس کاذکر کرتے ہوئے قرآن مجید نے کہا : ’’پھراے گمراہواورجھٹلانے والو!تم زقوم کے درخت کی غذاکھانے والے ہو،اسی سے تم پیٹ بھروگے اوراوپرسے کھولتاہواپانی (ملے گا)‘‘(الواقعہ54-51)۔
ایک اور جگہ فرمایا : ’’تویہ ضیافت اچھی ہے یا زقوم کادرخت ؟؟ہم نے اس درخت کو ظالموں کے لئے فتنہ بنادیاہے،وہ ایک درخت ہے جوجہنم کی تہہ سے نکلتاہے ،اس کے شگوفے ایسے ہیں جیسے شیطانوں کے سر،جہنم کے لوگ اسے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے پھراس پر پینے کے لئے کھولتاہواپانی ملے گا۔‘‘(الصفات67-62)۔ سورۃ دخان،آیت43تا47 میں اس درخت کی مزید حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’بے شک زقوم کا درخت گناہ گارکاکھاجاہوگا،تیل کی تلچھٹ جیسا،پیٹ میں وہ اس طرح جوش کھائے گا جیسے کھولتاہواپانی جوش کھاتاہے ،پکڑواسے اوررگیدتے ہوئے لے جاؤاس کو جہنم کے بیچوںو بیچ۔‘‘ ﷲتعالیٰ ہمیں اس عذاب سے محفوظ رکھے،آمین۔ نیک لوگوں کو جہاں رکھاجائیگا وہ جگہ درختوں سے ہی مستعار ہے اور اسے جنت یعنی باغات کانام دیا گیاہے۔سورۃ رعد،آیت35 میں ﷲتعالیٰ نے فرمایا: ’’پرہیز گار لوگوں کے لئے جس جنت کاوعدہ کیاگیاہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ،اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کاسایہ لازوال ہے ،یہ انجام ہے متقی لوگوں کا۔‘‘ سورۃ رحمن،آیت46تا55 میں کیاخوبصورت نقشہ کھینچاہے جنت کے باغات کا : ’’ہراس شخص کے لئے جو اپنے رب کے حضورپیش ہونے کاخوف رکھتاہو اس کے لئے 2 جنتیں ہیں ،پس اے جن و انس! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ،(دونوں جنتیں)ہری بھری ڈالیوں سے بھرپور ہیں،پس اے جن و انس! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔دونوں (جنتوں)میں2بہتے چشمے رواں ہیں،پس اے جن و انس! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ،دونوں جنتوں میں ہرہرپھل کی2,2 قسمیں ،پس اے جن و انس! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ،جنتی لوگ ایسے فرشوں پر تکیے لگائے بیٹھیں گے جن کے استر دبیزریشم کے ہوں گے اور باغوں کی ڈالیاں پھلوں سے جھکی پڑی ہوں گی ،پس اے جن و انس! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔‘‘
قرآن مجید اور احادیث کے مجموعے جنت کے اندر باغات،ان کے پھل،ان پھلوں کے ذائقے اور میلوں دوردورتک ان سے پھوٹنے والی خوشبوؤںکے ذکرسے بھری پڑی ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے اور درخت و باغات اور جنگلات فطرت کامظہر ہیں۔سال بھرمیں ایک بار درختوں اور جنگلات کادن منانے والی سیکولرتہذیب کے برعکس ایک مسلمان روزانہ تلاوت قرآن کرتے ہوئے یا نماز وغیرہ میں سنتے ہوئے کہیں نہ کہیں باغاتِ عدن کا ذکر تازہ کرلیتاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کرہ ارض پر بڑھتی ہوئی آلودگی جس سے باغات اوردرختوں کی حیات کو شدید ترین خطرات لاحق ہو چکے ہیں اسی سیکولر تہذیب کی کارستانیاں ہیں۔دنیابھرمیں آبادی کو کم کرنا اور کارخانوں کو خوب بڑھاناایک ایسا رویہ ہے جس سے جنگلاتی حیات کم سے کم تر ہوتی چلی جارہی ہے۔انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات انسان کو فطرت کے قریب تر لاتی ہیں جبکہ سیکولرتہذیب کے خیالات فطرت سے متصادم ہیں اور انسانیت کے لئے تباہ کن ثابت ہو رہی ہیں۔