Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’یہ حکم تباہ کن تھا‘، لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سے کچھ طالبان ناخوش

لڑکیوں کے سیکنڈری سکولوں کو گزشتہ ماہ مارچ بند کرنے کا حکم دیا گیا تھا (فوٹو: اے پی)
افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی نے جہاں بین الاقوامی سطح پر غم و غصے کو جنم دیا ہے وہیں کچھ طالبان بھی اس فیصلے سے حیران ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم پر طالبان کی پابندی سے پتا چلتا ہے کہ تحریک کے انتہائی قدامت پسندوں کا اس گروہ پر سخت کنٹرول برقرار ہے۔
طالبان کے ایک سینیئر رکن نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ حکم تباہ کن تھا۔ سپریم لیڈر نے خود مداخلت کی۔‘
لڑکیوں کے سیکنڈری سکولوں کو گزشتہ ماہ مارچ بند کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے تقریباً سات ماہ بعد پہلی بار لڑکیوں کے ہائی سکول کھلنے کے چند گھنٹوں بعد ہی طالبان انتظامیہ نے انہیں دوبارہ بند کر دیا تھا۔
جب گزشتہ برس اگست میں طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھالا، اس وقت کورونا وبا کی وجہ سے سکول بند تھے تاہم دو ماہ بعد صرف لڑکوں اور چھوٹی بچیوں کو سکول جانے کی اجازت دی گئی۔
اس وقت خدشات ظاہر کیے گئے تھے کہ طالبان لڑکیوں کی تعلیم کو ممنوع قرار دے دیں گے جیسا کہ انہوں نے 1996 سے 2001 تک کے اپنے پچھلے دور حکومت میں کیا تھا۔
حکام نے کبھی بھی اس پابندی کو درست قرار نہیں دیا تاہم ان کی جانب سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم ’اسلامی اصولوں‘ کے مطابق ہونی چاہیے۔
ایک سینئر طالبان عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ اور کچھ دیگر سینیئر شخصیات اس معاملے پر انتہائی سخت موقف رکھتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس تحریک میں دو گروہ معتدل اور انتہائی قدامت پسند سامنے آئے ہیں۔‘
طالبان عہدیدار نے علماء کے ایک گروپ کا حوالہ دیتے ہوئے مزید بتایا کہ ’انتہائی قدامت پسندوں نے یہ راؤنڈ جیت لیا ہے۔‘

شیئر: