پاکستان کے شمالی علاقوں کی سیر کے لیے سائیکلوں پر نکلا جرمن سیاحوں کا جوڑا چند دن قبل اس وقت مشکل کا شکار ہو گیا جب پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سے لگ بھگ 15 کلومیٹر پہلے ان کی ایک سائیکل خراب ہو گئی۔
یہ جرمنی سے تعلق رکھنے والے سیاح پیٹرک اور ڈیانا تھے۔ ڈیانا کی سائیکل کا پیڈل اچانک ٹوٹ گیا تھا جس کی وجہ سے ان کے لیے مزید سفر جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔
مزید پڑھیں
-
انڈین وزیراعظم کا کشمیر کے لیے 490 ارب روپے کے منصوبوں کا افتتاحNode ID: 663946
-
انڈین آرمی نے کشمیر میں افطار کی تصاویر کیوں ڈیلیٹ کیں؟Node ID: 664071
دلائی کا مقام جہاں یہ واقعہ پیش آیا، مظفرآباد راولپنڈی روڈ پر واقع ہے۔ وہاں موٹر میکنک کی اِکا دُکا دکانیں تو موجود ہیں لیکن سائیکلوں کی مرمت کا وہاں کوئی انتظام نہیں ہے۔
پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے وہاں سائیکلیں استعمال نہیں ہوتیں۔
پیٹرک اور ڈیانا 23 اپریل کی شام دلائی کی کشمیر آبشار سے لگ بھگ چار سو میٹر آگے سٹرک کے کنارے پریشان بیٹھے تھے۔ اس دوران دوران راجہ نذر عزیز نامی مقامی شہری کا وہاں سے گزر ہوا تو انہیں شام کے وقت سڑک کنارے بیٹھے اس بدیسی جوڑے کے بارے میں فکر لاحق ہوئی۔
نذر عزیز کشمیر پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل ہیں اور وہ قریبی علاقے چھتر کلاس میں بجلی کے منصوبے پر کام کرنے والے چینی شہریوں کی سکیورٹی پر مامور ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے راجہ نذر نے بتایا کہ ’میں افطاری کا سامان لے کر گھر جا رہا تھا۔جب میں نے اس جوڑے کو کھلی سڑک پر بیٹھے دیکھا تو سوچا کہ پوچھ لیتا ہوں، ان کا مسئلہ کیا ہے۔‘
’میں ان سے انگریزی میں بات شروع کی تو پتا چلا کہ خاتون کی سائیکل کا پیڈل خراب ہے اور وہ خراب سائیکل چلا کر بہت تھکی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔‘
نذر عزیز کے بقول ‘انہوں نے کہا کہ وہ آرام کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے انہیں پیشکش کی کہ یہاں قریب میرا گھر ہے، آپ میرے ساتھ آ سکتے ہیں۔‘
’جب مجھے محسوس ہوا کہ وہ ہچکچاہٹ کا شکار ہیں اپنی سیفٹی کے بارے میں فکرمند ہیں تو میں نے جیب سے اپنا پولیس سروس کارڈ نکال کر انہیں دکھایا۔ پھر وہ مطمئن ہو کر میرے ساتھ چلنے کو تیار ہو گئے۔‘
نذر عزیز انہیں اپنے گھر لے گئے۔ سائیکل پر مسلسل سفر کی وجہ سے پیٹرک اور ڈیانا کے کپڑے کافی خراب ہو چکے تھے۔
نذر عزیز نے فوری طور پر ان کے کپڑوں کی دھلائی کا انتظام کیا۔ بعد ازاں ان کی اپنے گھر کے کھانوں اور خشک میوے سے تواضع کی۔‘
’وہ افطار سے کچھ دیر پہلے میرے گھر پہنچے تو میں نے انہیں کھانا کھانے کو کہا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ آپ کا روزہ ہے ، ہم آپ کے سامنے کیسے کھا سکتے ہیں۔ تو میں انہیں بتایا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آپ کھا سکتے ہیں۔‘
اگلے روز سحری کے وقت کانسٹیبل نذر عزیز نے کشمیر میں سیاحوں کی سہولت کے لیے بنائی گئی ٹوریسٹ پولیس کو فون کر کے واقعے سے آگاہ کیا اور انہیں بتایا کہ سائیکل کی مرمت کا انتظام بھی کرنا ہوگا۔
’صبح ٹوریسٹ پولیس والے آئے ۔ جس قدر ممکن تھا سائیکل مرمت کی اور پھر وہ سیاحوں کو لے کر مظفرآباد کی جانب روانہ ہو گئے۔‘
پیٹرک اور ڈیانا کی اگلی منزل گلگت بلتستان تھی۔ ٹوریسٹ پولیس نے انہیں 24 اپریل کو کشمیر کو پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا سے ملانے والے مقام برارکوٹ تک پہنچایا اور اگلے سفر کے لیے رخصت کر دیا۔
نذر عزیز کی میزبانی سے متاثر جرمن جوڑے نے جاتے ہوئے اپنی تصویر والے پوسٹ کارڈ پر میزبان خاندان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا:
’پیاری راجپوت فیملی! آپ سے ملنا خوشگوار تجربہ تھا۔ آپ کے ہاں ہمارا قیام بہت خوب تھا۔ اگر آپ کبھی جرمنی آئیں تو ضرور بتائیے۔ ہم آپ کا خیرمقدم کریں گے۔‘
’آپ کا بہت شکریہ۔ ہمارے پہاڑوں کے اس سفر کا آغاز بہت شاندار رہا۔‘
’ہم آپ کو کبھی نہیں بھولیں گے۔‘
جب ان سیاحوں کے نذر عزیز کے گھر قیام کی تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو لوگوں نے انہیں خوب سراہا۔
کشمیر پولیس کے آئی جی سہیل حبیب تاجک نے نذر عزیز سے رابطہ کر کے انہیں بلا کر تعریفی سند اور نقد انعام سے نوازا۔
راجہ نذر کے بقول’ آئی جی صاحب نے کہا کہ لوگ سانحۂ مری کے بعد بہت دل شکستہ تھے۔ آپ نے سیاحوں کی میزبانی کر کے اچھی مثال قائم کی ہے۔‘
کوہالہ سے مظفرآباد دوران سفرجرمن سیاح مسٹر پیٹرک اورمسز ڈیانا کی سائیکل کا پیڈل ٹوٹ گیا-پولیس کانسٹبل راجہ نذر نے انھیں رات اپنے گھر میں ٹھہرایا، مہمان نوازی کی اور سائیکل مرمت کروا کرگلگت کے لیے الوداع کیا۔ان غیر ملکی مہمانوں نے آزادکشمیر کے لوگوں اور پولیس کا شکریہ اداکیا۔ pic.twitter.com/9bVCifKanl
— Tajik Sohail Habib (@DrTajikSohail) April 26, 2022