’جلد الیکشن کا فیصلہ سیاست دانوں نے کرنا ہے، فوج کا کوئی کردار نہیں‘
’جلد الیکشن کا فیصلہ سیاست دانوں نے کرنا ہے، فوج کا کوئی کردار نہیں‘
جمعرات 12 مئی 2022 16:43
ترجمان کے مطابق ایسے بیانات سپاہ اور قیادت کے مورال اور وقار پر منفی طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ (فائل فوٹو: آئی ایس پی آر)
ڈی جی آئی ایس پی آر افتخار بابر نے کہا ہے کہ ’جلد الیکشن کا فیصلہ سیاست دانوں نے کرنا ہے فوج کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔
جمعرات کو ایک بیان میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ سیاست دان اس قابل ہیں وہ بیٹھ کر بہتر طریقے سے فیصلہ کرسکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب بھی فوج کو کسی سیاسی معاملے میں بلایا گیا تو معاملہ متنازع ہو جاتا ہے۔ سیاست دان الیکشن کا فیصلہ بیٹھ کر ہی کر سکتے ہیں۔ الیکشن کے دوران سیاست دان فوج کو سیکیورٹی کے لیے بلائیں گے تواپنی خدمات پیش کریں گے۔‘
’فوج کبھی بھی سیاست دانوں کو ملاقات کے لیے نہیں بلاتی۔ جب فوج کو درخواست کی جاتی ہے تو پھرآرمی چیف کو ملنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے ساری کی ساری ذمہ داری سیاست دانوں پر ہوتی ہے۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر افتخار بابر کے مطابق ’پاکستان کے عوام اپنی مسلح افواج سے محبت کرتے ہیں۔ مسلح افواج کا کردار عوام کے لیے ہمیشہ اچھا رہے گا۔ مسلح افواج اور عوام کے کردار میں کسی قسم کی دراڑ نہیں آسکتی۔‘
’پچھلے چند دنوں میں تمام سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ نے مسلح افواج کی لیڈرشپ کے خلاف بیانات دیے۔ بار بار درخواست کی ہے مسلح افواج کو سیاسی گفتگو سے باہر رکھیں۔ ہمارے سیکیورٹی چیلنجز اتنے بڑے ہیں کہ ہم ملک کی سیاست میں شامل نہیں ہوسکتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ملک کی حفاظت کے اندر کوئی بھول چوک ہوئی تو معافی کی گنجائش نہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ فوج کے اندر تقسیم ہوسکتی ہے تو اس کو فوج کے بارے پتا ہی نہیں۔ پوری فوج ایک لڑی میں پروئی ہوئی ہے۔‘
’فوج اپنے آرمی چیف کی طرف دیکھتی ہے۔ کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی فوج کے اندر تقسیم پیدا کرسکتا ہے۔ واضح کر دوں جائز تنقید سے پرابلم نہیں ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پرتنقید نہیں پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔‘
افتخار بابر کا کہنا تھا کہ ’واضح کر دوں فوج کے اندرکسی بھی رینک میں کمانڈ کا عہدہ اہم ہوتا ہے۔ کسی بھی کور کی کمانڈ آرمی چیف کے بعد اہم عہدہ ہوتا ہے۔ ہماری ستر فیصد فوج ڈپلائمنمنٹ پر ہے۔ مختلف جگہوں پر کاؤنٹر ٹیرر ازم آپریشن کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ڈی جی آئی ایس آئی کے دوروں کو اوپن نہیں کیا جاتا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے دورے بیک گراؤنڈ میں چلتے رہتے ہیں۔ تمام ممالک کے انٹیلیجنس چیف کے ساتھ ملاقات اور انٹیلیجنس شیئرنگ ہوتی ہے۔ ایسے معاملات میں کوئی ابہام پیدا نہیں کرنا چاہیے۔‘
’ہمارے آفیسر اور جوان سوسائٹی سے کٹ کر رہتے ہیں۔ جب افواہیں اور ادارے کے بارے میں غلط بات چیت ہو تو ان تک بھی پہنچتی ہے۔ اس طرح کے بیانات سے ادارے کا مورال متاثر ہوتا ہے۔ آفیسر اور جوان ایک ہیں۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’ہماری لیڈرشپ کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔ ہمارے جوانوں کو اپنے آرمی چیف، کمانڈر پر یقین ہوتا ہے۔ فوج کے ہر رینک نے شہادتیں دی ہیں۔ لیڈرشپ پر تنقید کرنے سے ہر فوجی متاثر ہوتا ہے۔‘
’فوج کا سینٹر آف گریویٹی آرمی چیف ہوتا ہے۔ بلاوجہ آرمی چیف کے عہدے پر تنقید کے منفی اثرات ہوتے ہیں۔ بار بار کہتے ہیں کہ فوج کو سیاست سے دور رکھیں۔‘
’پشاور کور کمانڈر کے حوالے سے سیاستدانوں کے بیانات انتہائی نامناسب‘
اس سے قبل پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا کہنا تھا کہ پشاور کے کور کمانڈر کے حوالے سے اہم سینیئر سیاستدانوں کے حالیہ بیانات انتہائی نامناسب ہیں۔
آئی ایس پی آر کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ پشاور کور پاکستان آرمی کی ایک ممتاز فارمیشن ہے۔ ’پشاور کور دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف قومی جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس اہم کور کی قیادت ہمیشہ بہترین پروفیشنل ہاتھوں میں سونپی گئی ہے۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ پشاور کے کور کمانڈر کے حوالے سے اہم سینیئر سیاستدانوں کے حالیہ بیانات انتہائی نامناسب ہیں۔ ’ایسے بیانات سپاہ اور قیادت کے مورال اور وقار پر منفی طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔‘
آئی ایس پی آر کے مطابق افواج پاکستان کے بہادر سپاہی اور آفیسرز ہمہ وقت وطن کی خودمختاری اور سالمیت کی حفاظت اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر رہے ہیں۔
’اس لیے سینیئر قومی سیاسی قیادت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ادارے کے خلاف ایسے متنازع بیانات سے اجتناب کریں گے۔‘
خیال رہے بدھ کو سابق صدر آصف علی زرداری نے پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ پشاور کے کور کمانڈر جنرل فیض حمید تو کھڈے لائن ہیں۔ تاہم بعد میں سندھ کے وزیراطلاعات شرجیل انعام میمن نے وضاحت کی تھی کہ جنرل فیض حمید سے متعلق جملہ پریس کانفرنس میں بے دھیانی سے سابق صدر کے منہ سے نکل گیا تھا اور یہ دانستہ نہیں تھا۔
جمعرات کو جب مریم نواز شریف سے فیض حمید کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ’پاکستان کی افواج کا سربراہ ایسے شخص کو ہونا چاہیے جو ہر قسم کی تنقید سے، شک و شبے سے، اس کی ساکھ بے داغ ہونی چاہیے۔ یہ پاکستان کے 22 کروڑ عوام کے لیے اچھا ہے اور افواج پاکستان کے لیے بھی اچھا ہے۔ کوئی ایسا شخص پاکستان کی افواج کا سربراہ بنے جس پر کوئی داغ نہ ہو تاکہ افواج پاکستان کو لوگ سلیوٹ کریں۔‘