سوال یہ بھی ہے کہ منصوبہ بندی اور صلاحیت کی اس ناکامی کے الزام سے سیاستدان کب تک بچ سکتے ہیں؟
ایک طرف عمران خان کا مارچ روکنے کے لیے تقریباً پورے ملک کو جام کر دیا گیا دوسری طرف پی ٹی آئی کا سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کا اب بھی کوئی ارادہ نہیں۔
سیاسی تقسیم معاشرے کے ہر طبقے کے اندر سرایت کر چکی ہے۔
پہلے تو تقسیم ٹی وی اور سوشل میڈیا تک محدود تھی مگر اب اس سیاسی اختلاف سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ گھر ہو یا دفتر، مارکیٹیں ہوں یا پارک، ہر طرف سیاسی ماحول کا ہی عکس ہے۔
اس ہیجان اور اضطراب نے لوگوں کی ذہنی صحت پر بھی اثر ڈالا ہے۔ گمان ہے کہ اگر اس تقسیم کا اثر زیادہ دیر پا رہا تو اس معاشرتی تقسیم کے اثرات مزید نقصان دہ ہوں گے۔
انتظامی انحطاط بھی واضح ہے۔ پی ٹی آئی کے دور میں پنجاب میں گورننس اور انتظامی مسائل کے بہت چرچے تھے۔ گمان تھا کہ ن لیگ کی شہرت انتظامی چابک دستی کی ہے اور اب شاید گورننس میں سرعت دکھائی دے گی۔
یہاں بھی سیاسی مسائل کی وجہ سے انتظامی بہتری کی امید خاک میں ملتی نظر آتی ہے۔ وفاق میں تو ایک کمزور مخلوط حکومت اپنی جگہ مگر پنجاب میں اب بھی قانونی طور پر کوئی اکثریتی حکومت موجود نہیں۔
ٹیکنیکلی ایک وزیراعلٰی ہے مگر نہ گورنر ہے اور نہ ہی کابینہ۔ دو درجن نشستوں پر ضمنی انتخاب ہو رہے ہیں جن کا نتیجہ کسی طرف بھی جا سکتا ہے۔ معاشی میدان مکمل انتشار اور غیر یقینی صورتحال میں ہے۔ ملکی کرنسی اس طرح گِر رہی ہے کہ کوئی روکنے والا نہیں۔
تیل کی قیمت اب تک کی بلند سطح پر آنے کے بعد 200 روپے لیٹر سے بھی اوپر جانے والی ہے۔ ڈیفالٹ کی خبریں عام ہیں اور حکومت معاشی میدان میں معذوری کی حد تک مجبور نظر آتی ہے۔
پہلی دفعہ یہ سنا گیا کہ تیل کی قیمت بڑھانے کے فیصلے پر حکومت کے گھر جانے اور نئے الیکشن کا انحصار ہے۔ ہائیبرڈ اور سیم پیج کے طعنے دینے والے تیل کی قیمت کو نیشنل سکیورٹی کے فورم کے فیصلوں سے جوڑتے نظر آئے۔ ایسی کمزوری، عدم تحفظ اور خوف تو پاکستان کی تلاطم خیز سیاست میں بھی ایک نئی چیز ہے۔
سوال یہ ہے اس حکومت میں پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کو چھوڑ کر ملک کے باقی تمام سیاستدان شامل ہوتے ہوئے بھی پلان اور صلاحیت میں اتنی کمی کیوں ہے؟ کئی مہینے گو مگو اور اگر مگر کے بعد اب یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرنا چاہتی ہے۔
اس حکومت کے پاس مدت، سربراہ حکومت ، معاشی پالیسی اور سیاسی صورتحال کا کوئی نقشہ ہی موجود نہیں تھا۔ آئین میں واضح شق کے موجود ہوتے ہوئے بھی انہوں نے پنجاب میں وفاداری تبدیل کرنے والوں سے ووٹ دلوائے اور اب ایک اقلیت کے طور پر حکومت میں بیٹھے ہیں۔
معاشی صورتحال سے بغور واقف ہوتے ہوئے بھی کئی قیمتی ہفتے ضائع کیے گئے۔ ہر روز نہیں بلکہ ہر گھنٹے کے مطابق پالیسیوں میں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔
عمران خان تو حکومت سے نکالے جانے کے بعد ویسے بھی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں مگر اس کے باوجود حکومت کی طرح ان کی سیاست میں بھی یہی ہے کہ وہ غیر سیاسی قوتوں کی مدد سے محروم نہیں ہونا چاہتے۔
ن لیگ کی حکومت البتہ قوت فیصلہ اور صلاحیت میں اس طرح مفلوج ہو گی، اس کی کسی کو امید نہیں تھی۔
سیاست دان ملک میں جمہوریت کے جڑیں نہ پکڑنے کا بہت گلہ کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ سیاست دان آخر کب سیکھیں گے؟ کب وہ انتظامی صلاحیت پیدا کریں گے کہ مشکل فیصلے بھی کر سکیں اور پھر ان کو عملی جامہ بھی پہنا سکیں۔
کب وہ خالی دعووں کے علاوہ ٹھوس منصوبہ بندی کے بعد اقتدار میں آئیں گے؟ اور کب وہ اقتدار میں آنے کے بعد ترقی اور خوشحالی کے قابل عمل اور دیر پا اقدامات کریں گے؟
جب تک سیاستدان اقتدار میں آنے کے لیے تو سر دھڑ کی بازی لگائیں گے مگر کرسی پر براجمان ہونے کے بعد اس طرح ساکت اور جامد ہوں گے جس طرح گاڑی کی ہیڈ لائٹس کے سامنے ہرن، اس وقت تک عوام کا جمہوریت پر اعتماد بحال نہیں ہو سکے گا۔