اس سافٹ ویئر کے ذریعے سائبر حملہ آور متاثرہ کمپیوٹر کے تمام اہم اور قیمتی ڈیٹا کو لاک کر دیتے ہیں اور پھر اس تک رسائی واپس دینے کے لیے تاوان وصول کرتے ہیں۔
اخبار ڈیلی ڈی وولکسکرانٹ کی رپورٹ کے مطابق ’سائبر حملے میں مجرموں نے یونیورسٹی کے 25 ہزار طلبہ اور ملازمین کی سائنسی تحقیق، لائبریرں اور ای میلز تک رسائی روکتے ہوئے سینکڑوں ونڈوز سرورز اور بیک اپ کے نظام کو ہیک کر لیا تھا۔’
ہیکرز نے ڈیٹا تک رسائی واپس دینے کے لیے دو لاکھ یورو طلب کیے تھے جو دو لاکھ آٹھ ہزاور بٹ کوائن کی شکل میں ادا کیے جانے تھے۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے بعد یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ہیکرز کے مطالبے کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ ’اس کی وجہ یہ تھی کہ ڈیٹا ضائع ہونے کا خدشہ تھا اور طلبہ کے لیے امتحانات دینا اور اپنے تھیسز پر کام جاری رکھنا ممکن نہ تھا۔‘
ڈچ پولیس نے تاوان کی ادا کی گئی رقم کے ایک حصے کا سراغ لگایا جو یوکرین میں ایک منی لانڈر کے اکاؤنٹ میں منتقل کیا گیا تھا۔
سنہ 2020 میں پراسیکیوٹرز نے اس شخص کے اکاؤنٹ کو قبضے میں لے لیا جس میں مختلف کرپٹو کرنسی پڑی تھی اور یونیورسٹی کی جانب سے ادا کیے گئے تاوان کی رقم بھی تھی۔
اخبار کے مطابق ’اب دو برس بعد اس رقم کو واپس نیدرلینڈز منتقل کیا گیا تو ادا کی گئی رقم 40 ہزار یورو سے بڑھ کر اس کی مالیت پانچ لاکھ یورو کے لگ بھگ ہے۔
سدرن ماسٹرچٹ یونیورسٹی کو اب پانچ لاکھ یورو ملیں گے جو یونیورسٹی کے ڈائریکٹر مائیکل بورجرز کے مطابق عام فنڈ میں جانے کے بجائے مستحق طلبہ پر خرچ کیے جائیں گے۔