گجر بج اٹھا، پاکستانی سفارتخانے کا چانسری ہال شور سے گونج گیا، روزانہ 1200ہموطن مدد کے طلبگار ہوتے ہیں
* * * جاوید اقبال ۔ ریاض* * *
یک رویہ سڑک تھی۔ ہوائی اڈے سے چلتی حی الوزارات میں سے گزرتی ڈاکخانے کو بائیں ہاتھ چھوڑتی نالے کے آغاز پر جارکتی۔ بطحا شروع ہوجاتا۔ گہرے خشک نالے کے دونوں طرف پتلی سڑک جس پر گاڑیوں کا اژدہام ہوتا انکی حرکت رکی ہوتی اور نالے کے دونوں طرف بلندی پر دکانیں اور دکانوں کے عقب میں پرانے گھر ! یہ شہر کا مرکزی بازار بطحاء تھا۔ شہر کے نواح میں چھوٹے چھوٹے محلے تھے جو روایتی سعودی فن تعمیر کے نمائندہ تھے۔ سلیمانیہ، الملز،العلیا اور ذرا ہٹ کر ربوہ اور نسیم!! پھر سعودی دارالحکومت نے پرواز لی۔ 70کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں وسعت و تعمیر کی منصوبہ بندی ہوئی۔ ریاض کے گورنر شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود تھے۔
بلا کے منتظم اور منصوبہ بندی کے ماہر، تعمیر کیلئے پاکستان سے افرادی قوت مہیا ہوئی۔70کی دہائی میں ہمارے یہ ہموطن مملکت میں پہنچنا شروع ہوئے اور اپنے کام میں جت گئے۔ حرمین شریفین کی سرزمین تھی۔ احترام اور احساس تقدس نے ان کے بدنوں کو تھکن سے آشنا نہ ہونے دیا۔ صبح و شام ، شب و روز مشینیں شور برپا رکھتیں۔ آسمان روشنیوں سے منور رہتا اور انسانی بدن پسینے میں شرابور سنگ وخشت کو حسین شکل دیتے رہتے۔ صرف 4دہائیوں کے مختصر عرصے میں کرہ ارض پر کسی بھی شہر کی اتنی منظم اور جمیل صورتگری نہیں ہوئی جتنی سعودی شہروں کی ہوئی ۔ پیرس ، لندن، نیویارک، ٹوکیو صدیوں کی محنت شاقہ کا ثمر ہیں۔ میڈرڈ، روم، بیجنگ تاریخ کے صفحات پر کئی سو سال تشکیل کے مراحل سے گزرے لیکن سعودی شہر؟ ان کی شاہراہیں! ان میں فخر سے سر اٹھائے عمارتیں، انکے نو تعمیر شدہ بازار! سب صرف ساڑھے 3دہائیوں کا کھیل ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان شہروں کی ہر شاہراہ انکی ہر عمارت انکا ہر باغ اور اسکی ہر کیاری میں رقص کرتے پھول پاکستانی ہاتھوں کی صناعی کے مرہون منت ہیں۔ پسینے میں شرابور یہ بدن مشقت کرتے اپنے برادر ملک ، اپنے دوسرے وطن کی تعمیر کرتے رہے لیکن تابکے؟ایک وقت آیا جب مملکت نے اپنا وجود مکمل کرلیا اور انفرااسٹرکچر کی مزید تعمیر کی حاجت نہ رہی۔ پاکستان سے آئی افرادی قوت کی اتنی شدیدضرورت نہ رہی جتنی کہ 4دہائیاں قبل تھی۔ پھر سعودی وژن 2030 بھی نئے تقاضے لے آیا۔ مقامی افرادی قوت کو استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا۔
سعودی شہریوں کی تربیت اور انہیں روزگار مہیا کرنے کے منصوبے بنے تب حکومت نے محسوس کیا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو واپس جانا چاہئے۔ کوئی 2دہائیاں قبل سابق نائب وزیر تجارت ڈاکٹر عبدالرحمن الزامل سے بات کررہا تھا میرے اس سوال پر کہ مملکت کے تعمیراتی منصوبے مکمل ہورہے ہیں اس کے بعد تارکین وطن کی خدمات کہاں درکار ہونگی؟ انہوں نے انتہائی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا تھا ’’یہ تارکین اپنے اپنے ملکوں کو لوٹ جائیں گے۔ ہم ہر روز نئے شہر تعمیر نہیں کرسکتے‘‘۔ تو پھر اب گجربج اٹھا اور اب کے یہ واپسی کا ہے 4برس قبل جب مملکت نے اپنی افرادی قوت کو روزگار مہیا کرنے کیلئے ’’نطاقات‘‘ کا پروگرام متعارف کرایا تھا تو سفارتخانے نے اپنے وطن سے آئی افرادی قوت کو نقل کفالت میں آسانیاں فراہم کرنے کیلئے مختلف شہروں میں جاب فیئرمنعقد کئے تھے تب وہ پاکستانی جن کو اپنے کفیلوںسے اجازت مل چکی تھی اپنی کفالت تبدیل کراسکتے تھے اورسعودی وزارت محنت کے اعدادوشمار کے مطابق تقریباً9ہزار پاکستانی نقل کفالہ کراکے اپنا قیام قانونی بناپائے تھے۔ تب تعمیراتی شعبے میں کسی حد تک نئی افرادی قوت کی ضرورت بھی تھی۔ متعدد محنت کش پیشوں سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن نئے آجروں کے زیر کفالت آگئے تھے۔ جاب فیئر کامیاب رہا تھا لیکن یہ 4برس قبل لگا تھا اور اس عرصے میں پلوں کے نیچے سے بہنے والا پانی متعدد تعمیراتی منصوبوں کی تکمیل دیکھ چکا ہے۔ خادم حرمین شریفین کی حکومت کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ حج اور عمرہ کیلئے آنے والے متعدد حجاج و معتمرین اپنے پاسپورٹ ’’نادانستہ‘‘ طور پر گنوا دیتے ہیں اور واپسی کا سفر اختیار کرنے کو ترجیح نہیں دیتے۔ سعودی حکومت کو اس حقیقت کا بھی علم ہے کہ بعض تارکین وطن مملکت میں پہنچ کر جب حالات اپنی مرضی کے نہیں پاتے تو اپنی جائے کار کو چھوڑ جاتے ہیں جس کے نتیجے میں کفیل انہیں مفرور قرار دیکر حکومتی اداروں کو مطلع کردیتا ہے ۔
سعودی حکومت یہ بھی جانتی ہے کہ ہزاروں خواتین اور انکے بچے وزٹ ویزا پر مختصر مدت کیلئے آئے لیکن پھر یہاں کی آسائشوں میں ان کی خواہشات نے اپنے دامن یوں دراز کئے کہ یہیں مستقلاً قیام کر بیٹھے اور سعودی قانونی اداروں نے کبھی ان عارضی مہمانوں پر کوئی قدغن لگانے کا نہ سوچا کبھی کسی حکومتی اہلکار نے خواتین کو روک کر ان سے باز پرس نہ کی چنانچہ اس طرح کے مہمان برسوں مقیم رہے۔ لیکن اب جو خادم حرمین شریفین کی حکومت نے انتہائی سنجیدگی سے ان غیر قانونی تارکین کو 3ماہ کی مہلت دیکر ان سے مملکت چھوڑ دینے کا کہا ہے تو پاکستانی سفارتخانے کا چانسری ہال شور سے گونج اٹھا ہے۔ ہر روز1200کے قریب ہمارے ہموطن وہاں پہنچتے ہیں اور مدد کے طلب گار ہوتے ہیں۔ کئی قضیے ہیں۔ کوئی عمرے پر آیا اورپاسپورٹ گم کرکے ریاض پہنچ گیا۔ کوئی ایک کفیل کے پاس آیا تو معلوم ہوا کہ پاکستان میں ایجنٹ نے دھوکے سے غلط معاہدے پر دستخط کرائے تھے۔ کفیل ان شرائط سے لاعلم تھا جن پر مکفول کو مملکت بھیجا گیا تھا۔ کوئی اپنی اہلیہ اور بچوں کو آؤٹ پاس دلوانے آیا تھا۔ سفارتخانے کے اہلکار کثرت کار کے باوجود اپنے ہر ہموطن کی انتہائی مستعدی سے مدد کررہے ہیں۔ کمیونٹی ویلفیئر افسران شیخ عبدالشکور اور محمود لطیف اور ہیڈ آف چانسری سردار محمد خٹک ہال میں اپنے ہموطنوں کو ہدایات دے رہے ہیں تو پاسپورٹ سیکشن میں سپر وائزر شاہد گجر اور ابو بکر صدیق نئے پاسپورٹ بنوانے والوں کو ہر طرح کی آسائش مہیا کررہے ہیں۔ اردونیوز کو دونوں کمیونٹی ویلفیئر افسران سے گفتگو کا موقع ملا۔
محمود لطیف نے کہا کہ سعودی حکومت کی طرف سے تارکین وطن کو 3ماہ کی مہلت ملتے ہی سفارتخانے نے چانسری ہال میں ایک ہزار کے قریب نشستوں کا انتظام کردیا تھا اور 6سے زیادہ ڈیسک رکھوا دیئے تھے۔ ان پر سفارتخانے کے اہلکار بیٹھے ان لوگوں کو ایمرجنسی پاسپورٹ کاا جراء کرتے ہیں جن کے پاس پاسپورٹ نہیں ہیں۔ سعودی جوازات کا ٹوکن آن لائن نکلتا ہے۔ اس سہولت کی فراہمی کیلئے 4کاؤنٹر قائم کئے گئے ہیں۔ آغاز میں سفارتخانے کے کھلنے کا وقت 8بجے تھا تاہم ہجوم کی زیادتی کی وجہ سے اب کام 7بجے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ ہماری ٹیم صبح 7بجے سے سہ پہر 4بجے تک کام کرتی ہے لیکن ایک بات کا ذکر کرنا چاہتاہوں کہ اگر کوئی سائل 4بجے کے بعد آئے تو اسے بھی ہر طرح کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ سفارتخانے کا مطمع نظر ہے کہ دن کے وقت اس کی حدود کے باہر کوئی صف بنی ہوتی نظر نہ آئے۔ مدد کیلئے آنے والوں کو انتہائی خوشگوار ماحول مہیا کیا جاتا ہے۔ انہیں چانسری ہال میں بٹھایا جاتا ہے۔ پینے کیلئے پانی فراہم کیا جاتاہے۔ دوسری سہولیات حاصل ہیں۔ یوں پاکستانی سفارتخانے نے سعودی حکومت کے تعاون سے ایک لائحہ عمل وضع کیا ہے ہم یہ یقینی بنارہے ہیں کہ ہمارے ہموطن با عزت طریقے سے واپسی کا سفر اختیار کریں۔ کمیونٹی ویلفیئر اتاشی شیخ عبدالشکور کام کی بے انتہازیادتی کے باوجود بڑے منظم انداز میں کبھی مدد کیلئے آئے اپنے ہموطنوں کی صفوں میں جاتے اور انہیں واپسی کا طریقہ کار سمجھاتے اور کبھی کمپیوٹر پر آن بیٹھتے اور ریکارڈ پرنظر دوڑاتے۔
انتہائی دلکش انداز میں گفتگو کرتے ہیں اور ثانیوں میں دلوں کے دکھ دور کردیتے ہیں۔ ان سے گفتگو ہوئی تو طریقہ کار کو سمجھنے میں مزید آسانیاں پیدا ہوگئیں۔ کہنے لگے کہ سفارتخانے نے سعود ی حکومت کی دی گئی مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے غیر قانونی مقیمین کیلئے یہ پروگرام وضع کیا ہے۔ وہ جو غیر قانونی ہیں وزٹ ویزے پر آئے تھے یا سرحد پار کرکے مملکت میں داخل ہوئے تھے یا جن کے کفیلوں نے ان کا ہروب لگادیا ہے یا جو مطلوب ہیں ہم ان لوگوںکی رہنمائی بھی کررہے ہیں اور مدد بھی۔ ہمارا طریقہ کار انتہائی سادہ ہے۔ صبح سویرے مدد کیلئے آنے والے سب لوگوں کو ہم ٹوکن جاری کردیتے ہیں ۔ تقریباً1200لوگ ہوتے ہیں ان کو مختلف گروپوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جن لوگوں کے پاسپورٹس کی میعاد میں اضافہ درکار ہوتا ہے ہم انہیں الگ کرکے بلا معاوضہ یہ اضافہ کردیتے ہیں۔ جن لوگوں کے پاسپورٹ نہیں ہوتے ہم انہیں پہلے جوازات سے تاریخ لیکر دیتے ہیں۔ باہر یہ کام کچھ لوگ رقم لیکر کرتے ہیں مگر ہم یہ خدمت بلامعاوضہ انجام دیتے ہیں۔ سفارتخانے نے ایسے افراد کیلئے ایک کائونٹر قائم کیا ہے جس پر 6کمپیوٹر بمعہ انٹرنیٹ کنکشن موجود ہے۔ انکے ذریعہ ہم امیدواروں کو جوازات کیلئے تاریخ لیکر دے رہے ہیں۔
وزارت داخلہ کی ویب سائٹ سے پہلا قدم یہی ہے۔ اگر امیدوار کے پاس پاسپورٹ ہے تو وہ سیدھا وہاں چلا جاتا ہے تاہم اگر پاسپورٹ نہیں ہے تو ایمرجنسی ٹریول ڈاکومنٹ یعنی فوری سفر کی دستاویز کیلئے ہمارے رضاکار انکے پورے کوائف اکٹھے کرلیتے ہیں اسکے لئے شناختی کارڈ ہونا چاہئے تاکہ یہ ثابت ہوکہ درخواست کنندہ پاکستانی ہے۔ اس کے بعد ہم نادرا سے اس شخص کے بارے میں تصدیق کرتے ہیں ہم یہ کام ہر روز کرتے ہیں۔ صبح 7بجے سے رات 8بجے تک ہماری ٹیم کام کرتی ہے اور روز کے روزتصدیق ہوتی ہے۔ اسکے بعد ہماری ٹیم (ETD) ’’ایمرجنسی ٹریول ڈاکومنٹ‘‘ بنانا شروع کرتی ہے اور جن کو آنے کے لئے تاریخ دی جاتی ہے انہیں اس دن 4بجے یہ ڈاکو منٹ دیدیا جاتا ہے۔ تو نظام یہ کہتا ہے کہ خروج لگنے کے لئے قومیت کا پاکستانی ہونا ضروری ہے اب چاہے تو وہ پاسپورٹ سے ثابت ہوجائے یا ایمرجنسی ٹریول ڈاکومنٹ سے ۔ ہر اسٹیج پر ہم لوگوں کی رہنمائی کررہے ہیں۔ جن کا ای ٹی ڈی بنا ہو یا پاسپورٹ ہو تو ہم انہیں جوازات کیلئے ٹوکن دیدیتے ہیں۔ ایک گاڑی روزانہ ایسے لوگوں کیلئے جوازات جاتی ہے جن کے ا قامے بنے ہی نہیں۔ ان میں سے 10افراد کا خروج روزانہ وہاں لگتاہے تاہم ایسے لوگ جو عمرے، حج یا وزٹ پر آئے تھے اور جنکا اقامہ ہے اور نہ ہی ورک ویزا ۔ انہیں ہم ای ٹی ڈی بناکر دیتے ہیں۔ وہ سیدھے ایئرپورٹ پر چلے جاتے ہیں۔ عمرہ، حج ، وزٹ ویزا پر جوازات جانے کی ضرورت نہیں وہ صرف پاسپورٹ پر مملکت سے جاسکتے ہیں۔ سفارتخانے کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس مہلت سے فائدہ اٹھائیں۔ ہر روز تقریباً1200لوگ آتے ہیں تاہم میں یہ واضح کردوں کہ سارے لوگ ای ٹی ڈی حاصل کرنے کیلئے نہیں آتے ان میں سے کچھ صرف رہنمائی حاصل کرنے کیلئے آتے ہیں۔ ہم نے یہاں اپنے ان ہموطنوں کیلئے فوٹو کاپی،کیمرے اور کھانے کی سہولت مہیا کررکھی ہیں تاکہ زائرین کا وقت ضائع نہ ہو۔
یہ سب ایک چھت کے نیچے ون ونڈو آپریشن ہے۔ اس سوال پر کہ کچھ افراد پولیس یا کفیل کو مطلوب ہوتے ہیں یا کچھ کا ہروب لگا ہوتا ہے تو سفارتخانہ ان لوگوں کے مسائل کیسے حل کرتا ہے؟ شیخ عبدالشکور نے کہا کہ مطلوب اور ہروب دو مختلف چیزیں ہیں۔ ہروب ہوجانے والا اس موقع سے فائدہ اٹھا کر مملکت سے جاسکتا ہے چاہے اسکے اقامے کی مہلت ختم ہوچکی ہو۔ جوازات والے اسکا خروج بلا کسی تردد کے لگائیں گے۔ تاہم مطلوب ہونے کا مطلب ہے کہ اس کے خلاف کوئی مقدمہ قائم ہے۔ ایسی صورت میں سفارتخانہ ایسے شخص سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے علاقے کے پولیس اسٹیشن سے کلیئرنس لیکر آئے اگر وہ مل جاتی ہے تو معاملات میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔ ہم مطلوب کی روانگی میں اسکی مدد اور رہنمائی نہیں کرسکتے کیونکہ اس پر مقدمہ قائم ہے میری اپنے ہموطنوں سے درخواست ہے کہ سفارتخانے کو اپنا گھر سمجھ کر اسکی صفائی کا خیال رکھیں اور مریض و عمر رسیدہ افراد کو پہلے موقع دیں۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آؤٹ پاس یا ای ٹی ڈی ہونا ضروری ہے ۔ میں یہ واضح کردوں کہ جن لوگوں کے پاس پاسپورٹ ہے لیکن اسکی مہلت ختم ہوچکی ہے انہیں ان چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں ہم انکے پاسپورٹ کی مہلت میں اضافہ کردیں گے انکا پرانا پاسپورٹ بھی ای ٹی ڈی سے زیادہ بہتر ہے۔ اس سوال پر کہ مملکت میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد جب وطن عزیز پہنچتے ہیں تو انکے ساتھ ایئرپورٹ پر کیا سلوک کیا جاتا ہے؟ شیخ عبدالشکور نے کہا کہ پاکستان میں اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کو ہدایت کی گئی ہے کہ پاکستان پہنچنے والے ہمارے ان ہموطنوں میں سے اگر کسی کے پاس اپنے گھرجانے کیلئے رقم نہیں تو انہیں سفر کی سہولت مہیا کی جائے اور یقینی بنایا جائے کہ وہ بغیر کسی مشکل کے اپنے احباب کے پاس پہنچ جائیں۔ ایف آئی اے بھی تحقیقات نہیں کرتی ویسے تو یہ غیر قانونی مقیمین ہیں۔ انہیں ترحیل کے ذریعے جانا تھا لیکن سعودی حکومت نے انہیں مہلت دیکر ان پر بڑا احسان کیا ہے۔ یہ بغیر گرفتار ہوئے مملکت چھوڑ سکتے ہیں اور پھر واپس بھی آسکتے ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ وہ سلوک نہیں ہورہا جو ملک بدر ہونے والے کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ لوگ نئے ویزوں پر واپس آسکیں گے اور پاکستانی ہوائی اڈوں پر بھی ان کے ساتھ باعزت مسافروں والا سلوک ہورہا ہے ۔ اس سوال پر کہ پاکستانی ہوائی اڈوں پر امیگریشن والے ان کے پاکستان میں داخلے کی مہر کس دستاویز پر لگائیں گے؟ شیخ عبدالشکور نے واضح کیا کہ یہ مہران کے پاسپورٹ یا ای ٹی ڈی پر لگے گی۔ تو اب ہزاروں کی مملکت میں عشروں قیام کے بعد وطن عزیز کو واپسی ہورہی ہے۔
اردونیوزکو چند ایک سے گفتگو کا موقع ملا۔ انہوں نے بہت کچھ کہا۔ کچھ حکایات ناگفتنی ۔ کچھ فرحت بخش کہانیاں، کہیں تعریف و توصیف تھی کہیں مملکت سے جانے کا الم!
٭ ایبٹ آباد کا ڈرائیور صدام حسین مملکت آیا تو کفیل سے بہت اچھے تعلقات رہے۔ پھر جس منصوبے پر وہ مامور تھا وہ مکمل ہوگیا چنانچہ اب واپسی کا سفر اختیار کرنا چاہتا تھا۔ سفارتخانے کے حکام سے بیحد خوش تھا اور بار بار انکو دعائیں دیتا تھا۔ وطن عزیز پہنچ کر ’’ڈرائیوری‘‘ کرنے کیلئے بے تاب تھا۔
٭ محمد عمران ،پاکستان سے گھر کا ڈرائیور بن کر آیا۔ 6ماہ کی ملازمت کے بعد کفیل نے اسے نقل کفالت کیلئے کہا۔ محمد عمران نے ایک سعودی گھر میں 7ماہ تک کام کیا اور پھر ان گھر والوں کو درخواست کی کہ اسے پاکستان جانے دیں۔ اب سفارتخانے میں تھا اور اہلکاروں کے سلوک کی تعریف میں رطب اللسان تھا۔
٭ ایبٹ آباد کے ڈرائیور شبیر عباسی کی داستان ذرا مختلف تھی۔ مملکت بھیجنے کیلئے پاکستانی ا یجنٹ نے ساڑھے 3لاکھ روپے وصول کئے اور کہا کہ درختوں پر پتوں کی جگہ ریال اُگے ہیں۔ ٹرالر ڈرائیور ہے یہاں پہنچ کر بھید کھلا کہ ایجنٹ نے جعلی معاہدے پر دستخط کرائے تھے جو مشاہرہ لکھا تھا اسکا آدھا کفیل کے پاس موجود معاہدے میں تحریر تھا۔ چنانچہ تنازل لیا اور نئی جگہ پر کام بہت زیادہ تھا لیکن مشاہرہ کم تھا۔ سفارتخانے میں بیٹھا بار بار کہتا تھا کہ گھر پہنچ گیا ہے۔ اس یقین کا اظہار کرتا تھا کہ سی پیک میں اسے کام مل جائیگا۔
٭ فیصل آباد کے ویلڈر محمد راشد کی کہانی المناک تھی۔ اپنے ایک ہموطن کے ہاتھوں اذیت ناک حالات سے گزر رہا تھا۔ سیالکوٹ کے ایک قیصر نامی شخص نے اسے ویزا بھیجا تھا۔ قیصر کا اپنے مؤسسہ میں ایک درجن کے قریب کارکن تھے۔ سب ویلڈنگ کرتے تھے۔ محمد راشد بھی اسی جگہ کام کرنے لگا۔ قیصر نے اپنے سارے کارکنوں سے سادہ کاغذ پر انگوٹھے لگوا رکھے تھے اور ان سے بیگار لیتاتھا۔ کارکن انتہائی بری حالت میں تھے۔ دھونس اور دھاندلی کا شکار تھے لیکن کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے چنانچہ ا پنے ہی ہموطن کے بیگار کیمپ سے بھاگ کر سفارتخانے پہنچاتھا۔ واپس جانا چاہتاتھا۔ دستاویزات قیصر کے پاس تھیں۔ ہروب تھا اور مادر وطن جارہا تھا۔
٭ ظفروالی سیالکوٹ کا الیکٹریشن عبدالقدیر 20ماہ قبل بن لادن کمپنی میں آیا تھا۔ 6ماہ بعد اسکا خروج لگوا دیا گیا۔ 3لاکھ30 ہزار روپے ایجنٹ کو دیکر پاکستان سے آیا تھا۔ واپس کیوں جاتا؟ چنانچہ جدہ سے بھاگ کر ریاض آگیا اور مختلف جگہوں پر کام کرتا رہا۔ اب واپسی کا ارادہ تھا۔ پر امید تھا کہ بن لادن کمپنی اس کے بقایا جات ادا کردیگی۔ بونس کی ادائیگی باقی تھی۔جولائی کے اواخر تک صرف پاکستانی سفارتخانے کے چانسری ہال میں ایک لاکھ کے قریب ہمارے ہموطن اپنے قدموں کے نشان ثبت کرینگے۔ تو پھر اب یوں ہے کہ ہزاروں ، نہیں لاکھوں رخت سفر باندھ رہے ہیں۔ 2،3 یا 4دہائیاں قبل یہاں اترنے والے پاکستانیوں کی صناعی نے اس ریگزار کو شکل جمیل بخشی اور آج جب آبدار موتیوں جیسی عمارتیں اور الماس نما شہر تکمیل کی حدود چھو چکے ہیں تو ان کے خالق اپنے پر پرواز کھول چکے ہیں۔ سفر جاری رہیگا۔ ریاض، جدہ، مدینہ منورہ، مکہ مکرمہ سے کراچی، لاہور ، اسلام آباد، سی پیک! لہو کا رزار حیات کی اگلی مبارزت کے لئے تیار! ڈاکٹر وزیر آغا کا خوبصورت شعر!
دن ڈھل چکا تھا اور پرندہ سفر میں تھا
سارا لہو بدن کا رواں مشت پر میں تھا