75 سال بعد رینا ورما کی آمد، چھوڑ کر جانے کا دکھ اور لوٹ آنے کی خوشی
75 سال بعد رینا ورما کی آمد، چھوڑ کر جانے کا دکھ اور لوٹ آنے کی خوشی
بدھ 20 جولائی 2022 17:44
شیراز حسن -اردو نیوز، اسلام آباد
ڈھول کی تھاپ سنائی دے رہی ہے، پھول کی پتیاں نچھاور کی جا رہی ہیں، اس گلی میں آج کسی جشن کا سماں ہے۔ گیروی رنگ کا لباس اور سبز دوپٹہ اوڑھے ایک نحیف لیکن سرخ و سپید رنگت کی خاتون کا ہاتھ تھامے کچھ افراد انہیں ایک گھر کی راہ دکھا رہے ہیں۔
رینا چھبر ورما نے آج سے 75 سال قبل اسی گلی سے ہجرت کی تھی اور آج انہوں نے سات دہائیوں کے انتظار کے بعد دوبارہ یہاں قدم رکھا ہے۔
1947 میں جولائی اور اگست کے مہینے میں یہاں کیا حالات ہوں گے جب ان کے خاندان کو یہ گھر، گلی، محلہ اور یہ ملک جو کبھی ان کا اپنا تھا، چھوڑ کر جانا پڑا۔
راولپنڈی ضلع میں تقسیم ہند کے وقت ہونے والے فسادات کی کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ ایک وہ دن تھا اورایک آج کا دن ہے۔ وقت اور حالات سبھی بدل گئے لیکن یہ مقام وہی ہے۔
راولپنڈِی کی ڈی اے وی کالج روڈ پر الیکٹرانکس کی مارکیٹ کے درمیان گھری یہ گلی پریم گلی کہلاتی ہے۔ بازار کی کاروباری سرگرمیوں سے چند قدم کے فاصلے پر یہ منظر یہاں کے مقامی رہائشیوں کے لیے کچھ اجنبی تھا۔
یہاں کون آیا؟ یہ میڈیا والے کیمرے لیے کیوں آئے ہیں؟ دوکانداروں اور راہگیروں کی چہ میگوئیاں تھیں۔
رینا ورما آئیں، اپنے آبائی گھر کی چوکھٹ پر قدم رکھا اور دونوں ہاتھ جوڑ کر سب کا شکریہ ادا کیا۔ باہر گلی میں میڈیا کے نمائندوں کی تعداد بڑھ رہی تھی، آس پڑوس سے بچے بڑے اور خواتین ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب تھے کہ یہ کون ہیں؟ سبھی رینا ورما کی کہانی جاننا چاہتے تھے۔
رینا چھبر ورما کا خاندان تقسیم ہند سے قبل اس گھر میں مقیم تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی برادری کے تقریبا دس خاندان آس پڑوس میں رہتے تھے، گلی میں سبھی گھر ہندوؤں کے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ساتھ والے گھر میں حضرو کا ایک خاندان آباد تھا جن کی ایک لڑکی ہیرا ان کی دوست تھی۔
تقسیم کے بعد رینا ورما کا خاندان پونے جا کر دوبارہ آباد ہوا تھا۔ کوششوں کے باوجود وہ دوبارہ یہاں نہیں آسکیں۔
کچھ عرصہ قبل انہوں نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا کہ وہ اپنا آبائی گھر دیکھنے کی خواہش رکھتی ہیں، راولپنڈی کے ہی ایک رہائشی سجاد حیدر نے ان کا گھر ڈھونڈ نکالا اور اس کی تصاویر شیئر کیں۔ ویزہ کسی وجہ سے نہ مل سکا تو سوشل میڈیا پر دونوں جانب سے صارفین نے ایک مہم کا آغاز کردیا۔
فیس بک کے ایک گروپ انڈیا پاکستان ہیریٹیج کلب کے عمران ولیم اور ظاہر محمود نے اپنے طور پر کوششیں جاری رکھیں اور بالآخر انہیں ویزہ مل گیا۔
پونا سے واہگہ بارڈر اور پھر لاہور سے راولپنڈی کی ایک پریم گلی کا سفر اتنا آسان نہیں تھا۔ سات دہائیوں کا انتظار، اپنا گھر چھوڑنے اور چھوڑ جانے سے زیادہ دکھ واپسی کے راستے بند ہونے کا تھا۔ رینا ورما کو یہاں واپس آنے کی خوشی تو ہے اور وہ اس خوشی کو کچھ ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں کہ ’یہاں سے جانے کا دکھ شاید اتنا نہیں تھا جتنی خوشی یہاں واپس آنے کی ہوئی ہے۔‘
راولپنڈی میں ڈی اے وی کالج روڈ کا علاقہ اس کے علاوہ بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔
اسی روڈ سے متصل عالم خان روڈ پر فنون لطیفہ کے پنڈی بوائز بلراج ساہنی اور بھیشم ساہنی کا آبائی گھرہے، اور اسی علاقے میں واقع محلہ چٹیاں ہٹیاں میں بالی وڈ کے نغمہ نگار آنند بخشی کا آبائی گھر ہے۔
تقسیم ہند سے قبل یہ علاقہ نسبتا نئی آبادی تھی جہاں بیشتر خوشحال ہندو خاندان آباد تھے۔
اب کالج روڈ تو مکمل کاروباری مرکز بن چکا ہے، الیکٹرانکس کی مارکیٹ ہے اور چند ایک ہی پرانی عمارتیں رہ گئی ہیں جبکہ اس کے برعکس کالج روڈ کی ان گلیوں کے مکانات ایک الگ منظر پیش کرتی ہیں۔
لکڑی کے پرانے دروازے اور کھڑکیاں، چوبارے اور وہی پرانا طرز تعمیر آپ کو ماضی میں لے جاتا ہے۔
رینا ورما کا گھر تقسیم کے بعد خالی ہوگیا اور کشمیر سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہونے والے امتیازحسین کے خاندان کی ملکیت ہے۔
رینا ورما کی یہاں آمد اور اس گلی میں میلے جیسا سماں ان کے لیے حیرت کا باعث تھا۔ تاہم میڈیا کے نمائندوں کو گھر کے اندر جانے کی اجازت نہ مل سکی۔
یہ گھر آج بھی تقریبا اپنی اصل حالت میں ہے، فرش کی ٹائلوں سے لے کر چھتوں کے شہتیر، کھڑکیاں اور دروازے، سبھی پرانے ہیں جیسے انہیں بھی رینا ورما کے ایک بار یہاں لوٹ آنے کی امید رہی ہو۔
رینا ورما کی چہرے پر خوشی قابل دید تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ ایک 90 سالہ جسم میں 15 سالہ لڑکی کی روح لوٹ آئی ہے جو 75 سال قبل انہی گلیوں میں کہیں رہ گئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ کیسے اسی گلی میں مختلف کھیل کھیلا کرتی تھیں۔
انہوں نے پنجابی زبان کے پوٹھوہاری لہجے میں چند ٹپے ماہیے اور گیت بھی سنائے۔ ہر کوئی ان کو دیکھنا چاہتا تھا اور وہ اپنے گھر کے در و دیوار کو دیکھ رہی تھیں، انہیں چھو کر محسوس کر رہی تھیں۔
رینا ورما کا یہ سفر جو راولپنڈی سے شروع ہوا، ہجرت کا کرب اور لوٹ آنے کی خواہش 75 سال بعد پوری ہوئی، آج ان کا دن تھا۔
وہ دن جس کے لیے انہیں زندگی کے 75 سال کا انتظار کرنا پڑا۔ ان کی آنکھوں کی چمک سب بتا رہی تھی کہ چھوڑ کر جانے سے زیادہ لوٹ کر آنے کی خوشی کیا ہوتی ہے؟