Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پہلے 16 برس پڑھائی کرو پھر بلامعاوضہ انٹرن شپ‘

بلامعاوضہ انٹرن شپ کا مسئلہ صرف پاکستان میں ہی نہیں پایا جاتا بلکہ یہ دنیا بھر کا مسئلہ ہے (فائل فوٹو: آئی سٹاک)
سوشل میڈیا پر نوجوان اپنے مسائل پر اکثر گپ شپ کرتے نظر آتے ہیں۔
پاکستانی نوجوانوں کے اکثر مسائل بھی ایک جیسے ہی ہوتے ہیں جس کے متعلق وہ ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں اور ریاستی نظام اور سسٹم پر تنقید بھی کرتے ہیں۔
ایسی ہی ایک گفتگو سنیچر کے روز سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر دیکھنے میں آرہی ہے جہاں ایک خاتون نے بلا معاوضہ انٹرن شپ پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’قومی مذاق: پہلے انہیں 16 سال پڑھائی کراؤ اور پھر انہیں بلامعاوضہ انٹرن شپ پر بھرتی کرلو۔‘
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بلا معاوضہ انٹرن شپ کروانے کا رحجان بہت زیادہ ہے۔
بڑی بڑی کمپنیوں سے لے کر عام دفاتر تک انٹرن شپ کے پیسے نہیں دیتے جس کی وجہ سے طلبہ اور نوکریوں کے خواہش مند نوجوان مایوس رہتے ہیں۔زیادہ تر لوگ انٹرن شپ اپنی یونیورسٹی کی چھٹیوں میں کرتے ہیں اور اس کا دورانیہ 6 ہفتوں سے لے کر 8 یا 10 ہفتوں تک کا ہوتا ہے۔
مفت انٹرنشپ کے معاملے پر کی گئی اس ٹویٹ پر کئی جوابات سامنے آرہے ہیں۔
ایک صارف یونیورسٹیوں میں ہنر کے فقدان پر کہتے ہیں کہ ’قومی مذاق یہ ہے کہ ہم 16 سال بغیر کسی عَملی تعلیم کے پڑھتے ہیں، ہم صرف ڈگریاں پرنٹ کر رہے ہیں نہ کے ہنر۔‘
امیر نامی ایک صارف کہتے ہیں کہ ’کئی بار آپ کو انٹرن شپ کرنے کے پیسے دینے پڑتے ہیں۔‘
حضران نامی ایک صارف نے مطالبہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’انٹرن شپ کے لیے معاوضہ دینے کو عام کیا جائے۔‘
مزمل نامی ایک صارف کہتے ہیں کہ ’ہنر سیکھنا اور تجربہ حاصل کرنا آپ کو وہاں لے جاتا ہے جہاں ڈگری نہیں لے کر جاسکتی۔ کاش ہمیں یہ کسی نے وقت پر بتایا ہوتا۔‘
مِش کہتی ہیں کہ ’اسی وجہ سے ہم اپنی ڈگری کے ہر سال بلا معاوضہ انٹرن شپ کر رہے ہیں۔‘
عمر نامی ایک صارف کہتے ہیں کہ ’اگر انٹرن شپ آپ اپنی فیلڈ کا ماہر بنا رہی ہے تو یہ مفت کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اگر نہیں تو بہتر ہے کہ نہ کی جائے۔‘
بلامعاوضہ انٹرن شپ کا مسئلہ صرف پاکستان میں ہی نہیں پایا جاتا بلکہ یہ دنیا بھر کا مسئلہ ہے۔
2021 میں سی این بی سی کی ویب سائٹ کی مطابق امریکہ میں 40 فیصد انٹرن بلا معاوضہ کام کرتے ہیں۔

شیئر: