سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان 15 بکسوں میں موجود مواد کو واپس کرنے میں تاخیر کی تھی جس کی واپسی کے لیے کئی مہینوں سے نیشنل آرکائیو نے درخواست دی تھی۔
سابق صدر نے کہا کہ ان کے گھر پر چھاپا ضروری نہیں تھا اور اس سے قبل کسی امریکی صدر کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔
’متعلقہ سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ کام کرنے اور تعاون کرنے کے بعد میرے گھر پر یہ غیر اعلانیہ چھاپا ضروری یا مناسب نہیں تھا۔ انہوں نے میرے سیف کو بھی توڑا۔‘
چھاپے کے وقت سابق امریکی صدر نیویارک میں ٹرمپ ٹاور میں موجود تھے۔
محکمہ انصاف نے ڈونلڈ ٹرمپ کے گھر کی تلاشی پر تبصرے سے انکار کیا ہے۔ ایف بی آئی نے بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
واضح رہے کہ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر اے ورے کو ڈونلڈ ٹرمپ نے تعینات کیا تھا۔
ٹرمپ کے بیٹے ایرک ٹرمپ نے فاکس نیوز کو بتایا انہوں نے چھاپے کے بارے میں اپنے والد کو اطلاع دی۔
ان کا کہنا تھا کہ سرچ وارنٹ صدارتی دستاویز سے متعلق تھا۔
ڈانلڈ ٹرمپ نے 2016 میں امریکی صدارت کے لیے انتخابی مہم چلائی تھی اور حکومتی پیغامات کے لیے ذاتی ای میل اکاؤنٹ استعمال کرنے پر اُس وقت کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
صورتحال سے واقف ایک شخص نے بتایا کہ تلاشی اس لیے لی گئی کہ آیا سابق صدر کے گھر میں کوئی سرکاری ریکارڈ تو باقی نہیں۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیشنل آرکائیوز کو کچھ ریکارڈ واپس کرنے تصدیق کی تھی۔ انہوں نے اس کو معمول کا عمل قرار دیا تھا۔
انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ آرکائیوز کو ان سے کچھ نہیں ملا تھا۔