Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’گھر والوں کو نہ نکال سکی‘، طالبان کے ڈر سے ملک چھوڑنے والی خاتون پشیمان

طالبان کی آمد پر ہزاروں کی تعداد میں افغان ملک سے نکل گئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)
آج سے ٹھیک ایک سال قبل کابل ایئرپورٹ کی جانب بھاگنے والے لوگوں میں مسعودہ کوہستانی بھی شامل تھیں، جن کو طالبان کی آمد نے اس قدر خوفزدہ کیا کہ ملک چھوڑ دینے میں ہی عافیت جانی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مسعودہ ایک ایسی پرواز میں سوار ہونے میں کامیاب ہوئیں جس نے خلیج سے ہوتے ہوئے سپین جانا تھا۔
ان کی والدہ اور درجن بھر کے قریب رشتہ دار رش کی وجہ سے جہاز میں سوار نہ ہو پائے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی 41 سالہ مسعودہ کوہستانی کو اپنے پیاروں سے دوری کے ساتھ ساتھ احساس جرم کا بھی سامنا ہے۔
انہوں نے کابل میں اپنی والدہ کے ساتھ فون پر جذباتی کال کے فوراً بعد روئٹرز کو بتایا کہ ’مجھے یہ احساس خوفزدہ کرتا ہے کہ میں نے اپنے خاندان کو پیچھے چھوڑ دیا، جن میں میری بیمار والدہ بھی شامل ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ گھروالوں کے پاس اتنے پیسے موجود نہیں ہیں کہ اپنے اخراجات برداشت کر سکیں، اس سے قبل وہی اخراجات برداشت کرتی تھی۔
اگرچہ حتمی طور پر اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں کہ 15 اگست 2021 کو طالبان کے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے پر کتنے لوگ وہاں سے فرار ہوئے، تاہم یہ تعداد ہزاروں میں ضرور ہے۔

افغانستان چھوڑنے والوں کو امید ہے کہ ایک دن وہ روز آئے گا جب وہ اپنے گھر لوٹیں گے (فوٹو: روئٹرز)

روئٹرز نے 13 افغان انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ بات چیت کی ہے جو طالبان کی آمد کے بعد وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے اور ان کو امید ہے کہ ایک روز وہ پھر سے اپنے گھر لوٹیں گے۔
مرد اور خواتین ایسے ملک میں جانے سے کترا رہے ہیں جس کی حکومت نے بنیادی آزادیوں کو محدود کیا ہوا ہے۔
افغان وزارت داخلہ کے نائب ترجمان بسم اللہ حبیب کا کہنا ہے کہ طالبان نے ان تمام افغانوں کو واپس آنے کی دعوت دی ہے جو ملک چھوڑ گئے تھے اور واپسی میں مدد کے لیے ایک خصوصی کمیشن بھی قائم کیا گیا ہے۔
مسعودہ کوہستانی اس وقت سپین میں موجود ہیں، انہوں نے روئٹر کو بتایا کہ ان کے مہاجر کے سٹیٹس کی تصدیق کر دی گئی ہے جو پانچ سال کے لیے ہے۔
دوسری جانب سپین کی وزارت داخلہ نے انفرادی کیسز پر بات کرنے سے انکار کیا ہے جبکہ وزارت کے ڈیٹا میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً تین ہزار افغان سپین پہنچے جو سیاسی پناہ کے خواہشمند تھے، ان میں سے تقریباً دو ہزار نے درخواست دی ہے اور اب تک 15 سو افراد کو سیاسی پناہ دی گئی ہے۔

مسعودہ افغانستان میں موجود اپنے گھروالوں کے لیے پریشان ہیں (فوٹو: روئٹرز)

کوہستانی کہتی ہیں کہ ’میں سپین میں اکیلی رہتی ہوں اور کابل کے ہوائی اڈے پر گزارے تکلیف دہ لمحات کی تلخ یادیں ابھی تک خوفزدہ کیے ہوئے ہیں۔‘
اس روز ایئرپورٹ حکام نے ان کو اس جہاز میں سوار ہونے کی اجازت دے دی تھی تاہم اس کے گھر والوں کو سوار نہیں ہونے دیا تھا کیونکہ جہاز پہلے سے بھرا ہوا تھا۔
روئٹرز آزادانہ طور پر اس دعوے کی تصدیق نہیں کر سکا۔
افغانستان میں موجود مسعودہ کوہستانی کی چھوٹی بہن اور وہیل چیئر تک محدود والدہ کہتی ہیں کہ طالبان اب بھی ان کے گھر کے چکر لگاتے ہیں کہ کہیں وہ واپس تو نہیں آ گئیں۔
دوسری جانب افغان وزارت داخلہ ایسی کسی تلاشی کی تردید کی ہے۔
مسعودہ کی والدہ نے ٹیلی فون پر روئٹرز کو بتایا کہ ’مجھے اپنی زندگی کی فکر نہیں، بس چاہتی ہوں کہ میرے جنازے پر بیٹی واپس آ سکے۔‘

شیئر: