پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کی تقاریر براہ راست ٹی وی چینلز پر نشر کرنے پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ملا جلا ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں
عمران خان کے مبینہ دھمکی آمیز خطاب کے بعد جہاں ایک طرف تحریک انصاف کے حامی پیمرا کی ہدایات کو ’مکمل پابندی‘ کا رنگ دے کر مذمت کر رہے ہیں تو وہیں بہت سے لوگ یہ بھی یاد دلا رہے ہیں کہ تقاریر کے صرف براہ راست نشر کرنے پر پابندی ہے اور نیوز چینلز تاخیری میکنزم کے ساتھ عمران خان کے بیانات نشر کر سکتے ہیں۔
ماہر قانون ریما عمر نے ٹوئٹر پر اس حوالے سے لکھا کہ ’عمران خان کا لہجہ اور ان کے الفاظ کا چناؤ، جب وہ جج زیبا چوہدری کو ’ایکشن‘ سے دھمکا رہے تھے اس میں صنفی جھلک تھی۔ انہوں نے خاتون جج کو نام سے پکارا اور باور کرایا کہ وہ ایک خاتون ہیں۔‘
ریما عمر کے مطابق اس کے باوجود کہ زیبا چوہدری ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہیں عمران خان کی جانب سے اُن کو مجسٹریٹ پکارا گیا جس سے یقینی طور پر پہلے سے ہی ایک ’نفرت انگیز تقریر‘ کو ’صنفی ٹچ‘ بھی دیا گیا۔
Imran Khan’s tone and choice of words as he threatens Judge Zeba Chaudhry with “action” reek of sexism
He calls her by name, repeatedly points out she’s a woman, refers to her as magistrate even though she’s an ADSJ - an obvious “sexist touch” to an already toxic, hateful speech
— Reema Omer (@reema_omer) August 21, 2022
پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما فرحت اللہ بابر نے ٹویٹ کیا کہ ’ایک خاتون جج کا نام لینا اور اسے کسی مبینہ خلاف ورزی پر دھمکی دینا لیکن خلاف ورزی کرنے والے طاقتور کو محض ایکس اور وائے کہہ کر پکارنا بہادری نہیں۔ یہ بزدلی ہے۔ یہ بدتمیزی ہے۔ یہ کوئی اعزاز نہیں، یہ بے عزتی ہے۔‘
The hunch of many is that, desperately seeking power at any cost, @ImranKhanPTI has exposed himself to grievous harm by the powerful.
Their dilemma is that they detest legitimising the powerful ones even as they detest Imran.
Follow due process & let him crumble under own weight— Farhatullah Babar (@FarhatullahB) August 21, 2022
وکیل خالد حسین تاج نے اپنی ایک ٹویٹ میں سابق وزیراعظم عمران خان کے بیان کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ ’عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہونی چاہیے۔‘
ایک خاتون جج کو دھمکی دیکر عمران خان نے تمام حدیں کراس کر دی۔ جو زبان عمران خان نے ایڈیشنل سیشن جج زیبا چودھری صاحبہ کے خلاف استعمال کیے میں اس کی شدید مذمت کرتا ہوں عمران خان کے خکاف توہین عدالت کی کاروائی ہونی چاہئے
— Khalid Hussain Taj (@KhalidHusainTaj) August 20, 2022
دوسری جانب عمران خان کے حامی سوشل میڈیا پر ان کے بیان کا دفاع اور ان کے مخالفین پر الزامات لگاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
سعد نامی صارف نے سابق وزیراعظم کی طرف سے دی جانے والی مبینہ دھمکیوں کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا ’پروپیگنڈا‘ قرار دیا اور کہا کہ ’عمران خان نے صرف یہ کہا کہ ہم تمہارے خلاف کیس کریں گے۔ اسے دھمکی کیسے کہا جاسکتا ہے؟‘
PDM touts spreading propaganda that Imran Khan threatened IG, DIG & a judge where IK just said that we will launch a case against you. How does this count as a threat?
— Saad (@Noobiy12) August 21, 2022
انس رضا نامی صارف بھی ایسا ہی سوال کرتے نظر آئے۔ انہوں نے سابق وزیراعظم کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’کیا قانون جنگ کا انتخاب کرنا غیرقانونی ہے؟‘
Imran Khan said that they will take action against the DIG Police and Session Judge Zeba, by “filing cases against them for their unconstitutional actions”.
Is opting for a legal battle, unlawful?
They banned his speeches on TV due to this. Shameful!
pic.twitter.com/fCEQOpIIAO— Annus Raza (@annusraza) August 21, 2022