ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مالداروں کے مال میں غریبوں کا بھی حصہ ہے،اللہ تعالیٰ نے اسے مسلمانوں پر لازم اور اسکا حصہ مقرر کردیا ہے
* * * مولانانثاراحمد حصیر القاسمی۔حیدرآباد دکن* * *
عیش وعشرت ‘فضول خرچی ، انفاق میں حد سے تجاوز کرنااور جائز وناجائز ہر ایک میں نفس کی خواہشات اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا ناپسندیدہ ہے۔ اسلام نہیں چاہتا کہ مسلمان دنیوی لذتوں میں اس طرح غرق ہو کہ وہ گردوپیش کے محتاجوں اور خالق کائنات کے حقوق سے غافل ہوجائے۔عیش وعشرت میں پڑے ہوئے یہ لوگ اس سے زیادہ راحت وآرام اور تعیش کے طالب ہوتے ہیں جس کا تقاضا انسانی زندگی کرتی یا انسانی کرامت وشرافت جس کی متقاضی ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ تعیش میں اس طرح پڑے ہوئے لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے بارے میں فیصلہ سناتاہے کہ انہیں دائمی عقوبت خانے میں سزائے موت سے دوچار ہونا پڑے گا اور وہاں ان کا استقبال ان کے جرم کے مطابق کیا جائے گا: ’’اور بائیں ہاتھ والے کیا ہیں بائیں ہاتھ والے۔‘‘(الواقعہ41)۔
پرتعیش زندگی کے عادی چاہتے ہیں کہ عیش وعشرت کے سارے وسائل اس کے پاس مہیا رہیں، وہ ظاہری چمک دمک سے بہرہ ور رہیں ، ان وسائل میں سے کسی کے اندر کمی یا تنگی کبھی نہ آئے ، اس طرح کا تعیش اور خواہش اس کی عادت ثانیہ بن چکی ہوتی ہے جس سے باہر آنا اور گلو خلاصی اس کے لئے دشوار ہوتی ہے۔ اس طرح کے عیاش سامانِ آسائش کو جمع کرنے کی فکر میں لگے رہتے اور زیادہ سے زیادہ سامانِ تعیش حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ دنیا پر اس طرح مرتے اور ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے یہی ان کی منتہا اور مقصود اصلی ہے۔ ان سے یہ ساری حرکتیں اور ساری سرگرمیاں حق وخیر کی قیمت پر سر زد ہوتیں اور ایمان کے تقاضوں کو فراموش کرکے انجام دی جاتی ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کی قائم کردہ حدود کو نظر انداز کرتے ہوئے سمندر سے سیرابی حاصل کرنے والے پیاس کی حد کو پہنچ جاتے ہیں کہ وہ جس قدر زیادہ اس آب شور کو پیتا ہے اس کی پیاس میں شدت وزیادتی ہی پیدا ہوتی ہے، اس میں کمی نہیں آتی۔
عیش وعشرت میں پڑے ہوئے لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری کرتے کہ نعمتوں کی کثرت وفراوانی انہیں اس پر مجبور کرتی ہے۔ بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر بجا لاتے ہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی معصیتوں اور بے فائدہ کاموں میں اپنی دولت اور نعمت اِلٰہی کو برباد کرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کی راہ میں صرف کرنے کیلئے ان کے ہاتھ نہیں اٹھتے اور حاجت مندوں کے ساتھ سلوک کرنے میں وہ بڑے بخیل وحریص بن جاتے ہیں۔ عیش وعشرت میں پڑے لوگوں کی زندگی پر اگر غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ان کے اندر پیسے سے پیسے بنانے اور مزید سے مزید کو پانے کی حرص اپنی انتہا کو پہنچی ہوتی ہے۔ وہ مزید کو حاصل کرنے کیلئے اور اپنے سے بڑے کے مقام تک پہنچنے کیلئے ہر ممکنہ تدبیریں کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ حلال ہے یا حرام ۔ ان کے اندر سے حلال وحرام کی تمیز عموماً اٹھ جاتی ہے ، ان کی فکر بس یہی ہوتی ہے کہ انہیں یہ مطلوبہ شئے مل جائے اور یہ چیزیں اس کے پاس ہمیشہ باقی رہیں۔ اس کے زوال کا انہیں کبھی منہ نہ دیکھنا پڑے اور وہ اس میں دن بدن اضافہ کرتے رہیں خواہ مجبوروں ، بے کسوں ، محتاجوں، ناداروں اور محروم افراد کی قیمت ہی پر کیوں نہ ہو۔ ایسے لوگ کم ہی قوم وملت اور کمزوروں کی مدد کیلئے اٹھتے ہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ مال بہت شیریں اور شاداب ہوتا ہے جس میں پڑ کر انسان بدمستی میں مبتلا ہوجاتا اور عیش وکج روی کا شکار ہوجاتا ہے، ہاں جو اس مال کو داہنے اور بائیں اللہ کی راہ میں رضائے الٰہی کیلئے خرچ کرتا ‘کسی باطل کو مٹاتا اور کسی مغلوب حق کو حاصل کرنے میں مدد کرتاہے ، مسکینوں ، یتیموں ، بیوائوں ، ابن سبیل او رنادار سائل ومحروم کو دیتا اور ان کی دستگیری کرتا ہے تو یہ مال عظیم نعمت اور سراپا خیر ہے ۔ مال کے اندر بہتر طریقہ اور بھلے انداز میں تصرف کرنے سے نہ صرف آخرت میں انسان کو فائدہ حاصل ہوگا بلکہ خود دنیا میں حاصل ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مال کو ’’خیر‘‘ سے تعبیر کیا ہے ، بشرطیکہ اسے صحیح مصرف میں خرچ کیا جائے کہ اس کے ذریعہ جسم کی ‘انسانی کرامت کی ‘ملک وملت کی ‘انسانی مروت اور عزت وآبرو کی حفاظت کی جائے ، مال اگر انسان جائز طریقہ پر کماتا اور حاصل کرتا ہے پھر حق اور صحیح مصرف میں اسے خرچ کرتا ہے تو یہ قابل مذمت نہیں بلکہ قابل ستائش نعمت ہے جس پر اللہ کا شکر بجا لانا چاہیے۔
صحیح طریقہ پر کمانا اور صحیح جگہ پر خرچ کرنا عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی طرح اسے حاصل کرنے اور خرچ کرنے کی تاکید کی ہے۔ جو اپنے ہاتھ کی کمائی پر اعتماد کرتے ہوئے شام کرتا اور محنت سے رزق حاصل کرتا ہے، وہ رات اس طرح گزارتا ہے کہ اس کی مغفرت ہوچکی ہوتی ہے،پر جو لوگ دولت وثروت جمع کرنے اور عیش وعشرت کے عادی وحریص ہوجاتے ہیں، ان کا مزاج ہر خواہش کے پیچھے بھاگنے اور کسی بھی طرح مال وسامان تعیش حاصل کرنے کا ہوجاتا ہے وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ وہ حلال طریقہ سے حاصل کررہے ہیں یا حرام طریقہ سے ،اس میں اللہ کی رضا ہے یا ناراضگی ، اس طرح وہ ایسے جانور کی طرح ہوجاتے ہیں کہ جو ہریالی دیکھ کر اس کے کھانے میں لگ جاتا اور کھاتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کا پیٹ ضرورت سے زیادہ بھر جاتا پھر پھٹ جاتا اور اس کی ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے۔ اس ہری بھری ترقی یافتہ اور مہذب دنیا میں ہمیں بہت سے لوگ ایسے ملیںگے جو ایسے ہی جانور کی طرح ہیں۔ اولئِک کالانعامِ بل ھم اَضَلُّ (الاعراف179)۔ وہ اتنا مال واسباب اپنے پاس جمع کرتے ہیں کہ جس کی انہیں ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ جمع کرتے ہیں اور اسے حاصل کرنے میں وہ اللہ سے نہیں ڈرتے وہ اپنے ارد گرد دولت وثروت کا ڈھیر وانبار دیکھنا چاہتے وہ اس کے اندر فضول مگن رہتے اور اس میں ہاتھ ڈالتے اور نکالتے رہتے ہیں وہ ان کی نگاہوں پر پٹی پڑ جاتی ہے جس سے وہ اپنے گرد وپیش کو دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں، اپنی دولت وثروت کی چمک ان کی نگاہوں کو خیرہ کئے ہوتی ہے، جو دیکھنے کی صلاحیت ان سے سلب کرلیتی ہے ، یہاں تک کہ اگر ان سے کہا جائے : ’’اور ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے میں سے کچھ خرچ کرو تو یہ کفار ایمان والوں کو جواب دیتے ہیں کہ ہم انہیں کیوں کھلائیں جنہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو خود کھلا پلا دیتا، تم تو ہو ہی کھلی گمراہی میں ۔‘‘(یٰسین47)۔
اس طرح کے لوگ جب سماج میں پیدا ہوجائیں اور ان کی دستگیری کرنے والے اہل صلاح وتقویٰ علماء ومفکرین نہ ہوں جو انہیں حق وصواب کی رہنمائی کریں اور زندگی گزارنے کے صحیح طریقہ سے انہیں واقف کروائیں، یا ایسے لوگ تو ہوں مگر وہ ان کی رہنمائی کرنے سے بے اعتنائی برتیں تو خطرہ ہے کہ اس کی پاداش میں اللہ کہیں سبھوں کو عذاب میں مبتلا نہ کردیں، خاص طور پر جبکہ عیش وعشرت اور تعیش کے ساتھ دوسروں پر ظلم وزیادتی بھی ہو جو کہ دولت وثروت کے نشہ کا لازمی حصہ ہے، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔ ’’پس کیوں نہ تم سے پہلے زمانے کے لوگوں میں سے ایسے اہل خیر لوگ ہوئے جو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے ، سوائے ان چند کے جنہیں ہم نے ان میں سے نجات دی تھی ، ظالم لوگ تو اس چیز کے پیچھے پڑ گئے جس میں انہیں آسودگی دی گئی تھی اور وہ گنہگار تھے۔ ‘‘(ہود 116)۔ اس آیت کے اندر فساد وبگاڑ سے مراد نہ صرف کفر ہے بلکہ اس کا لازمی حصہ معصیت ونافرمانی بھی ہے ، عیش وعشرت میں پڑے ہوئے یہ لوگ جب اپنی عیاشی کی وجہ سے حق سے غافل ہوکر دنیا میں سراپا منہمک ہوگئے اور ان کا مطمح نظر صرف دنیوی لذت وخواہشات کو پانا ہوگیا ، اور خلق خدا کی طرف سے انہوں نے اپنا منہ موڑ لیا تو اللہ نے سبھوں کو ہلاک کردیا کیونکہ اس تعیش کے ساتھ ظلم وزیادتی کا پایا جانا لازم ہے اور اللہ تعالیٰ کا نظام واٹل قانون ہے کہ وہ کسی کا فر ملک اور کافر حکمراں کو تو عدل کی وجہ سے ڈھیل دیتا ہے اور اس کی حکمرانی کو برقرار رکھتا ہے مگر ظلم وزیادتی کے ساتھ کسی ملک یا حکمراں کو ڈھیل نہیں دیتا خواہ وہ مسلم ملک اور حکمراں موحد ومسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مالداروں کے مال میں غریبوں کا بھی حصہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اسے مسلمانوں پر لازم اور اس کا حصہ مقرر کردیا ہے تاکہ سماج کا کوئی فرد ایسا نہ ہو جو عیش وعشرت میں بدمست ہو اور دوسرا نان شبینہ تک کیلئے ترس رہا ہو، اسلام نے اس راہ سے ایسے سماج کی تعمیر وتشکیل کی راہ ہمواری کی ہے جس میں لوگ اعتدال ومیانہ روی سے رہیں نہ کوئی حد سے زیادہ دولت کے نشے میں غرق ہو اور نہ کوئی غربت کے دلدل میں پھنسا اور دانہ دانہ کے لئے ترس رہا ہو۔قرآن نے اشارہ کیا ہے کہ حد سے زیادہ مال ودولت میں ڈوبا ہوا عیش وعشرت میں مبتلا طبقہ انسانی زندگی کیلئے خطرہ ہے یہ خطرہ انسانی زندگی کو تاریک بنا سکتا ہے اس لئے عوام اور ملکی باشندوں کو امن وامان فراہم کرنا انہیں راحت وسکون اور سعادت وخوش بختی فراہم کرنا اس بات کا متقاضی ہے کہ ہر ممکن وسائل اختیار کرتے ہوئے حد سے زیادہ عیش پرستی کو روکنے اور اسے قابو میں رکھنے کی کوشش کی جائے، اللہ سے دور اور احکام خداوندی سے منہ موڑ کر عیش وعشرت میں زندگی بسر کرنے والے ہر اصلاحی کوشش کے دشمن اور حق کے بدترین حریف ہوتے ہیں، جو اپنے مقصد کو پانے کیلئے سیاسی سماجی تنظیمیں قائم کرتے ، رفاہی وسماجی خدمات انجام دیتے اور اس طرح کے دوسرے کام کرتے ہیں تاکہ ان کی عیاشی برقرار رہے اور جرائم کی پردہ پوشی ہوتی رہے وہ اپنا اونچا مقام سیاسی گلیاریوں اور سماجی راہداریوں میں بنا سکیں تاکہ آڑے وقت اس سے وہ مستفید ہوسکیں اور اپنے جرائم ومظالم کو آسانی کیساتھ دھو سکیں۔ حد سے زیادہ خوشحال اور عیش وعشرت میں مبتلا طبقہ ہی ہمیشہ ملک وخطہ میں بگاڑ ،کرپشن ، بدعنوانی ، انتشار ، جنگ وجدال اور فتنہ انگیزی اور تباہی وبربادی کا سبب بنا ہے۔ وہ اس طرح کی بیماریوں کے جراثیم کو پھیلاتا اور فتنوں کے دروازوں کوکھولتا ہے۔ یہ عوام کے مستقبل سے کھلواڑ کرتا اور ان کے انجام بد سے لاپرواہ ہو کر محض اپنے مفاد کے لئے کچھ بھی کرنے کیلئے تیار رہتا ہے، ملک وقوم کے اندر جتنے بھی قتل وغارتگری اور جنگ وجدال کے واقعات پیش آتے ہیں، اور اس میں قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں اس کے پیچھے ایسے ہی سرمایہ داروں کا رول ہوتا ہے جن کے جسم پر قیادت وسیاست کا خول چڑھا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کرلیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو کچھ حکم دیتے ہیں اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر (عذاب کی) بات ثابت ہوجاتی ہے، پھر ہم اسے تباہ وبرباد کردیتے ہیں۔ ‘‘(الاسراء16)۔
ان سرمایہ داروں کے نزدیک پر سکون وپرامن زندگی بڑی بری ، بھیانک ، ملک وقوم کیلئے پرآشوب اور ناگوار ہوتی ہے کیونکہ لوگ امن وچین اور راحت وسکون میں رہ کر ان کی دولت وثروت تقسیم کرنے کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں، اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ دولت ان کے ہاتھ میں سمٹ کر رہ جائے اور ملک کے پاشندے غریب کے غریب رہیں کوئی حکام وسرمایہ دار کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنے اور برابری کرنی کے قابل نہ ہو، بلکہ وہ ان سے بھیک مانگنے اور ان کی غلامی اختیار کرنے پر مجبور رہے۔ ’’سب کے سب اللہ کے سامنے روبرو کھڑے ہوں گے، اُس وقت کمزور لوگ برائی والوں سے کہیںگے کہ ہم تو تمہارے تابعدار تھے تو کیا تم اللہ کے عذابوں سے کچھ عذاب ہم سے دور کرسکنے والے ہو؟وہ جواب دیںگے اگر اللہ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم بھی ضرور تمہاری رہنمائی کرتے، اب تو ہم پر بے قراری کرنا اور صبر کرنا دونوں ہی برابر ہے ہمارے لئے کوئی چھٹکارا نہیں۔‘‘(ابراہیم21)۔ اس وقت ہندوستانی حکمرانوں کی معاشی پالیسی کو اسی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ حکمراں طبقہ اور انہیں اقتدار پر لانے والے سرمایہ داروں کی یہی سوچ ہے، اور وہ انہی خطوط پر عمل پیرا ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلام کے بتائے ہوئے راستہ اور اس کے اصول وضوابط اور اس کی خوبیوں کو صحیح ڈھنگ سے ابنائے وطن تک پہنچائیں اور خود ہمارے درمیان جو طبقاتی چیلنج حائل ہے اسے پاٹنے کی کوشش کریں۔