Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کی تقریر نشر کرنے پر پابندی 5 ستمبر تک ختم

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی تقاریر براہ راست نشر کرنے پر عائد پابندی آئندہ سماعت تک معطل کر دی ہے۔
پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کی تقاریر برارہ راست نشر کرنے پر پابندی کے خلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے پیمرا کے احکامات معطل کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں پیمرا کے احکامات اختیارات سے تجاوز کے زمرے میں آتے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ موجودہ حالات میں عمران خان کی تقریر پر پابندی کا کوئی مناسب جواز نظر نہیں آتا۔ 
20 اگست کو ایف نائن پارک اسلام آباد میں عوامی اجتماع سے خطاب میں عمران خان نے اسلام آباد پولیس سینیئر افسران اور ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اسلام آباد کے آئی جی، ڈی آئی جی ہم نے آپ کو نہیں چھوڑنا۔ ہم آپ کے خلاف کیس کریں گے۔‘
سابق وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا تھا ’مجسٹریٹ صاحبہ زیبا، آپ بھی تیار ہوجائیں آپ کے اوپر بھی ہم ایکشن لیں گے۔‘
اس تقریر کے بعد سنیچر کی رات گئے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے جاری اعلامیے میں تمام ٹی وی چینلز کو عمران خان کی براہ راست تقریر اور خطاب نشر کرنے سے منع کیا تھا، تاہم عمران خان کی ریکارڈ شدہ تقریر نشر کی جاسکتی ہے۔
عدالت میں عمران خان کی خانب سے بیرسٹر علی ظفر، فیصل چوہدری اور دیگر وکلاء پیش ہوئے۔
بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ سیلاب متاثرین کے لیے عمران خان ٹیلی تھون کرنا چاہتے ہیں،  جس سے بڑی رقم اکٹھی ہوگی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے عمران خان کی جانب سے عدلیہ سے متعلق بیان کا بھی ذکر کیا۔
عدالت کی ہدایت پر وکلاء نے عمران خان کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ پڑھ کر سنایا۔

عمران خان نے 20 اگست کی تقریر میں سرکاری افسران کو دھمکیاں دی تھیں۔ فوٹو: اے ایف پی

چیف جسٹس نے استفسار کیا ’آپ عمران خان کی تقریر کا دفاع کرتے ہیں؟ کیا ججز کو اس طرح دھمکیاں دی جا سکتی ہیں جس طرح دی گئیں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ’تین سال جس طرح ظلم کیا گیا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی، بہت بوجھل دل سے کہہ رہا ہوں کہ عدلیہ کو دھمکیاں دینے کی امید نہیں تھی۔ افسوس ہے موجودہ حکومت وہی کر رہی ہے جو پچھلے تین سال ہوتا رہا۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا ’ایک خاتون جج کو دھمکیاں دی گئیں۔ کہا گیا جج کو چھوڑیں گے نہیں۔ میرے بارے میں کہا جاتا تو کوئی بات نہیں تھی لیکن ایک خاتون جج کو دھمکیاں دی گئیں۔ ‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ٹارچر ناقابل معافی ہے لیکن خاتون جج کو دھمکیاں دینا اس سے بھی زیادہ ناقابل معافی ہے۔ 
دوران سماعت چیف جسٹس  نے ریمارکس دیے کہ پورے تنازعے سے شہباز گل کے فئیر ٹرائل کو متنازعہ بنا دیا گیا ہے، ٹارچر ایک الگ مسئلہ ہے آپ نے اس کو بھی متنازعہ بنایا۔ 
 وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کو اپنے بیان پر شوکاز نوٹس مل چکا ہے، عمران خان کے خلاف مقدمہ بھی درج ہو چکا ہے۔ 
عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے شہباز گل پر تشدد کے نشانات دیکھے ہیں۔ 

پیمرا نے عمران خان کی تقریر براہ راست نشر کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

پیمرا کی جانب سے عائد پابندی سے متعلق چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی سزا یافتہ نہیں تو اس پر ایسی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ 
شہباز گل پر مبینہ تشدد کے حوالے سے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’تھانوں کا کلچر ہے کہ ٹارچر ہوتا ہے، جس جذبے سے اپوزیشن میں آ کر بولتے ہیں اگر حکومت میں آ کر بولیں تو صورتحال مختلف ہو۔ یہ قوم آج بھی تقسیم ہے اور اسے متحد کرنے کی ضرورت ہے۔‘ 
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ایگزیکٹوز جب حکومت میں ہوتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ تھانے میں ٹارچر ہوتا ہے، آج تک کسی بھی ایگزیکٹو نے ٹارچر کو ایشو کے طور پر نہیں دیکھا۔ سب سے بڑا ٹارچر اس ملک میں جبری گمشدگیاں ہیں۔‘
عدالت نے پیمرا کی ہدایات آئندہ سماعت تک معطل قرار دیتے ہوئے کیس کی سماعت 5 ستمبر تک ملتوی کر دی ہے۔ عدالت نے تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔

شیئر: