خیبرپختونخوا میں ہراسیت کے کیسز میں 100 فیصد اضافہ
خیبرپختونخوا میں ہراسیت کے کیسز میں 100 فیصد اضافہ
پیر 12 ستمبر 2022 5:08
فیاض احمد -اردو نیوز، پشاور
سماجی کارکن شوانا شاہ نے بتایا کہ سائبر ہراسمنٹ کے کیسز کو رپورٹ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ فوٹو: سٹاک امیجز
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں کام کی جگہ پر ہراسیت کے واقعات کی شرح میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے جن میں مردوں کی شکایات بھی شامل ہیں۔
خیبر پختونخوا کی صوبائی محتسب برائے انسداد ہراسیت رخشندہ ناز نے اردو نیوز کو بتایا کہ رپورٹ ہونے والے واقعات کی تعداد اب بھی اصل واقعات سے کہیں کم ہو سکتی ہے کیونکہ صوبے کی ایک بڑی تعداد بالخصوص خواتین کو اس بارے میں آگاہی نہیں ہے اور بہت سی خواتین تو ہراسیت کے معنی بھی نہیں جانتیں۔
رخشندہ ناز، جو جنوری 2019 میں صوبے کی پہلی خاتون محتسب برائے انسداد ہراسیت تعینات ہوئی تھیں، کے مطابق سال 2021 میں کام (یا ملازمت) کی جگہ پر ہراسیت کے کل 55 واقعات درج کروائے گئے تھے جبکہ رواں سال یہ تعداد بڑھ کر 114 ہو گئی ہے۔
رخشندہ ناز نے اردو نیوز کو بتایا کہ رواں سال انہیں موصول ہونے والی مجموعی شکایات کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی مگر ان میں زیادہ تر گھریلو تشدد، جنسی زیادتی اور وراثتی مسائل سے متعلق تھیں جو ان کے دائرہ کار میں نہیں آتیں لہٰذا اس لیے انہیں نہ تو درج کیا گیا اور نہ سرکاری ریکارڈ میں شامل کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ رپورٹ کیے جانے والے واقعات میں سے کم از کم تین شکایات مردوں کی طرف سے موصول ہوئی تھیں جن کا کہنا تھا کہ خواتین نے ان کو ہراساں کیا ہے۔
تعلیم اور صحت کے محکموں میں ہراسیت کی زیادہ شکایات
رخشندہ ناز کے مطابق ہراسیت کی زیادہ تر شکایات محکمہ صحت اور محکمہ تعلیم سے آتی ہیں کیونکہ ان میں خواتین ملازمین کی تعداد زیادہ ہے۔ ’ ہم نے اب تک ہراسمنٹ ثابت ہونے پر چار ملازمین کو برطرف کروایا ہے۔‘
رخشندہ ناز نے بتایا کہ ’صوبائی محتسب کے پاس 59 سائبر ہراسمنٹ کے کیسز رپورٹ ہوئے جو ہم نے ایف آئی سائبرکرائم ونگ کو ریفر کیے، سوشل میڈیا پر ہراسمنٹ کی شکایتیں زیادہ آتی ہیں، تصویر یا ویڈیو کے ذریعے بلیک میلنگ ہوتی ہے، یا غیراخلاقی میسجز بھیجے جاتے ہیں ۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے پاس پہلی بار مردوں کی جانب سے خواتین کے خلاف ہراسمنٹ کے تین کیسز رپورٹ ہوئے۔ ایک شکایت پولیس اہلکار کی جانب سے آئی تھی جس میں انہوں نے بتایا کہ کسی خاتون نے ان کو ہراساں کرنے کی کوشش کی تھی۔‘
اس حوالے سے مرتب کی گئی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق ہراسیت کی شکایات پر ایکشن لیتے ہوئے تین افراد کو نوکری سے معطل کر دیا گیا جبکہ سات افراد کو 25 ہزار سے 50 ہزار روپے تک جرمانہ کیا گیا۔
رخشندہ ناز کے مطابق محتسب کے پاس آنے والی ہراسیت کی شکایات میں سے 131 کو منطقی انجام تک پہنچا دیا گیا ہے۔
صوبائی محتسب کے مطابق ’اگرچہ گھروں کے اندر ہونے والی مارپیٹ اور دیگر گھریلو مسائل صوبائی محتسب برائے انسداد ہراسانی کے دائرہ اختیار میں نہیں تاہم ہم مظلوم لوگوں کی مدد کے لیے ایسی شکایات کو متعلقہ اداروں پولیس، ایف آئی اے ، کورٹس اور سائبر کرائم وغیرہ کو بھیج دیتے ہیں۔‘
صوبائی محتسب رخشندہ ناز نے مزید بتایا کہ ورک پلیس ہراسمنٹ کی انکوائری کے لئے جنوری 2021 سے دفاتر کے اندر کمیٹی بنانے کی ہدایت کی گئ تھی۔ اس پر عمل نہ کرنے والے دفاتر یا منتظمین کو جرمانہ کیا جارہا ہے۔ لیکن اداروں کی انتظامیہ پھر بھی ایسے واقعات کو دبانے کی کوشش کرتی ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’انسداد ہراسیت کمیٹی کے قیام کے بارے میں ملازمین کو بتایا ہی نہیں جاتا۔ یہ رپورٹنگ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ بعض کیسز میں متاثرہ خاتون اپنی شکایت واپس لے لیتی ہیں، اس بات کی تحقیق بھی ضروری ہے کہ وہ رضامندی سے شکایت واپس لیتی ہیں یا انہیں ڈرایا جاتا ہے۔ کچھ دفاتر میں ادارے کی بدنامی کی خاطر خاتون سے شکایت واپس لینے پر زور دیا جاتا ہے۔‘
صوبائی محتسب کے مطابق جن دفاترمیں کمیٹیاں اپنا کردار ادا نہیں کرتیں، اُن کو 25 ہزار سے 1 لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا رہا ہے۔
ادارے کے سربراہ کے خلاف ہراسیت کی شکایت کیسے کی جائے؟
تاہم صوبے کی خواتین نے ہراسانی کی شکایات درج کرانے کے طریقہ کار کی پیچیدگی کی بھی نشاندہی کی ہے۔
صائمہ ناز (فرضی نام) نے اردو نیوز کو بتایا کہ صوبائی محتسب نے دفاتر کے اندر کمیٹی بنانے کے لیے گائیڈ لائنز تو جاری کی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ادارے کے سربراہ کے خلاف شکایت کیسے درج کی جائے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن شوانا شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ سائبر ہراسمنٹ کے کیسز کو رپورٹ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ایک تو سائبر ہراسمنٹ درج کرانے کا طریقہ بہت پیچیدہ ہے۔ ایک ای میل کرو شکایت درج کرنے کے لیے تو تین ماہ بعد جواب آتا ہے۔‘
’آج کل بہت سی لڑکیوں کی تصاویر اور ویڈیوز لیک ہو رہی ہیں۔ ان کو رانگ نمبرز سے بلیک میل بھی کیا جاتا ہے مگر وہ ڈر کے مارے رپورٹ نہیں کرتیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ایسے کیسز میں خودکشی کے کئی واقعات بھی رونما ہوئے۔ صوبائی محتسب کی طرح سائبر ہراسمنٹ سیل کو بھی فعال بنانا ہوگا کیونکہ ڈیجیٹل دور میں سائبر ہراسمنٹ بہت زیادہ ہے۔
خیال رہے کہ دو سال قبل پشاور اسلامیہ کالج کی لا ڈپارٹمنٹ کی طالبات کی جانب سے ہراسمنٹ سے متعلق باقاعدہ مہم چلائی گئی تھی۔
طالبات نے الزام لگایا کہ اساتذہ کی جانب سے ان کو مطالبات نہ ماننے پر مختلف طریقوں سے تنگ کیا جاتا ہے تاہم اس معاملے پر تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا اعلامیہ تو جاری ہوا مگر انکوائری رپورٹ آج تک سامنے نہ آ سکی۔