مغرب کی جینز پوش ، لگتا ہے ’’جمہوریت‘‘ چلی جا رہی ہے
جمعرات 27 اپریل 2017 3:00
وہ پہنتے ہیں، ہم اوڑھتے ہیں، ہم پھوٹتے ہیں،وہ پھوڑتے ہیں،وہ ٹہلتے ہیں، ہم دوڑتے ہیں،ہم ٹوٹتے ہیں، وہ توڑتے ہیں
- - - - - -
شہزاد اعظم۔جدہ
- - - - - - -
ہمیں آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ہم مشرق کے باسی اور ’’عرفِ عوام‘‘ میں مشرق کے ’’جَم پَل‘‘ہونے کے باوجودمغرب کی تقلید کیوں کرتے ہیں۔ جہاں تک زبان و کلام کا تعلق ہے تو ہم نے انتہائی تفاوت یا سیاہ و سفید جیسے فرق یا سچ اور جھوٹ جیسی واضح تفریق یا دائیں اور بائیں جیسے صریح سمتی اختلاف کو واضح کرنے کے لئے’’بعد المشرقین‘‘ یا ’’شرق و غرب کاتفاوت‘‘ جیسی ’’اصطلاحیں‘‘اپنا رکھی ہیں۔ اس کے باوجود جب ہم مغرب کی تقلید کرنے پر آتے ہیں تو یہ حقیقت ذہن سے نکال پھینکتے ہیں کہ مغرب مغرب ہے اور مشرق مشرق۔ وہ ، وہ ہیں او رہم ، ہم ہیں۔حد تو یہ ہے کہ ہم مغرب میں جا بسنے کے باوجود اُن جیسے نہیں ہو سکتے اور وہ لوگ مشرق میں آ کر بس جائیں تو بھی ہمارے جیسے کبھی نہیں ہو سکتے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ مغرب والوں نے غیر منقسم ہندوستان میں 100برس قیام کیامگر پھر بھی وہ ہم جیسے نہیں ہو سکے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اُن کی زبان مختلف، اُن کا رہن سہن مختلف،اُن کا کھانا اور خصوصاً ’’پینا‘‘ بالکل مختلف، انکے اور ہمارے لباس مختلف۔ وہ پہنتے ہیں، ہم اوڑھتے ہیں، ہم پھوٹتے ہیں،وہ پھوڑتے ہیں،وہ ٹہلتے ہیں، ہم دوڑتے ہیں،ہم ٹوٹتے ہیں، وہ توڑتے ہیں۔اس کے باوجود ہم نے اُن مغرب والوں کی تمام عادات کواپنی ’’محبوبہ‘‘ بنا رکھا ہے۔ ذرا سی دیر کے لئے حقیقت کے اندر جھانک کر دیکھئے۔ مغرب کی خواتین پیدائش سے لے کر موت تک ’’اسمارٹ‘‘ رہتی ہیںگویا ’’اسمارٹ نیس‘‘ در حقیقت مغرب کی خواتین کا وصف ہے جبکہ ہمارے ہاںکی خواتین کا وجود ’’اسمارٹ نیس‘‘کو بالکل برداشت نہیں کرتا۔
اگر ’’غلطی‘‘ سے کوئی مشرقی صنفِ نازک ’’اسمارٹ‘‘ ہوبھی جائے توسسرال سدھارنے کے بعداس کا وجود اسمارٹ ہونے کی ’’غلطی‘‘ کا ازالہ کرنا شروع کر دیتا ہے اوروہ کم سے کم چند ماہ اور زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ برس کے اندر اندر بہوجیسے’’لطیف تصور‘‘کو پامال کر کے ساس جیسی ’’کثیف حقیقت‘‘ میں ڈھل جاتی ہے اور پھرپیوندِ خاک ہونے تک اس کی اس’’کثافت‘‘ میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔مغرب میں خواتین کی اسمارٹنیس قابلِ دید ہوتی ہے جبکہ ہمارے مشرق میں صرف ’’شنید‘‘ ہوتی ہے۔اسی لئے ہمارے ہاں صنفِ نازک ’’خدوخال‘‘ ڈھانپتی ہیں جبکہ مغرب میں خواتین ’’خال خال‘‘ ڈھانپتی ہیں۔مغرب کی خواتین کا چلن دیکھ کر ’’ہنس‘‘ یاد آتا ہے اور ہمیں اپنی مخالف صنف کی سبک خرامی دیکھ کر ذہن میں ’’کوّے‘‘ کا خیال دراندازی کرتا محسوس ہوتا ہے۔اس کے باوجود ہماری خواتین اتنی ضدی ہیں کہ وہ لباس کے انداز میں بھی مغربی خواتین کی ہمسری کرنے پر اتر آئیں۔ مغرب کی خواتین جینز پہنتی ہیں اوران کی اسمارٹنیس بھی چونکہ لائق دید ہوتی ہے اس لئے ایسا لگتا ہے جیسے گلاب کوگلدان میں سجا دیا گیا ہو۔اس کے برعکس ہماری خواتین کی اسمارٹنیس صرف شنید ہوتی ہے اس لئے جب وہ جینز پہنتی ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے روئی کی گانٹھ کو بے ڈھنگے انداز میں پھیلنے سے روکنے کے لئے بند باندھ دیا گیا ہے ۔یہی نہیں بلکہ جب جینز پوش مغربی خاتون قریب سے گزرے تو لگتا ہے جیسے ’’جمہوریت‘‘ چلی جا رہی ہے۔اس کے قدموں کی آہٹ کانوں میں رس گھولتی ہے اور جب ہماری جینز پوش خواتین دور سے گزریں تو لگتا ہے جیسے’’ آمریت ‘‘چلی جا رہی ہے اور اس کے قدموں کی چاپ کانوں میں زہر گھولتی ہے۔ ایک اور فرق یہ دیکھئے کہ اگر مغربی خاتون انتہائی بڑی غلطی کرتے ہوئے اپنے خدوخال مستور کرنے کے لئے ساڑھی یا شلوار قمیص پہن لے تو مشرق کی تمام تر رعنائیاں اس پر نچھاور ہونے لگتی ہیں اور اسے دیکھ کر دل کی دھڑکن یہ کہتی سنائی دیتی ہے کہ ’’سونے پہ سہاگہ‘‘۔
ادھر ہماری مشرقی خواتین اگر ضد پوری کرتے ہوئے ’’خال خال ‘‘ مستور کرنے والا مغربی لباس پہن لیں تو دل ’’9،9 آنسو‘‘ رونے لگتا ہے اور زبان سے ’’چیخ دار ‘‘ انداز میں آہ نکلتی ہے کہ اسے کہتے ہیں’’کریلا اور نیم چڑھا‘‘۔ آج کل ہمارے وطن عزیز کے چپے چپے میںایسے واقعات، حادثات، اجتماعات، تصرفات،اختلافات،اختراعات، تنفیذات، اخراجات، بیانات، حرکات اورمطالبات ہو رہے ہیں جنہیں دیکھ کر، سن کر، جان کر اور مان کر عقل حیراں،ذہن گنگ، آنکھیں پھٹی اور منہ کھلا رہ جاتا ہے اورہم جیسے مکمل پاکستانی کا وجودعملی طور پر ’’ہکا بکا‘‘ رہ جاتا ہے۔ ہم اسی غم و اندوہ میں مستغرق سوچ رہے تھے کہ نجانے ہمارے ملک کے حالات بہتری کی جانب رواں دواں کیوں نہیں ہو رہے، ہمارے وطن کو کس کی نظر لگ گئی۔ اتنے میں ہمارے ایک بہی خواہ آ دھمکے۔ ہماری کیفیت دیکھ کر باندازِ پُرسہ، دلاسہ دینے کی کوشش کی۔ ہم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور اُن سے استفسار کیا کہ ہمارے ملک میں کیا کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جسے ہم رہنما مان سکیں، حقیقی محبِ وطن گردان سکیں،قومی خزانہ بلا خوف و خطر اس کے حوالے کر سکیں؟بہی خواہ نے جواب دیا کہ جمہوریت مغرب کا نظام ہے اور اسی معاشرے کو زیبا ہے۔ مغرب میں جمہوریت ہو تو اس کی چال ’’ہنس‘‘ جیسی ہوتی ہے، مشرق اور خصوصاً ہمارے وطن میں اگر جمہوریت کو گھسیٹا جائے تو اس کی چال ’’کوّے‘‘ کی طرح ہوتی ہے۔ فی الوقت ہمارے ہاں کوے کی چال ہی چلی جا رہی ہے جبکہ ہمیں خالصتاً مشرقی نظام درکار ہے جس میں ڈنڈے کی حکمرانی ہوتی ہے ۔ اس حکمرانی میں تمام کوّے ہنس کی چال چلنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے اور اگر کوئی کوّا ، ہنس کی چال چلنے لگے تو اس کی ٹانگیں توڑ دی جاتی ہیں اور پھر وہ اپنی چال چلنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ان کا جواب سن کر ہمیں تشفی ہوئی اور ہم نے دل میں کہا، آمین۔