Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایم کیو ایم میں جاری سیاسی کشمکش، کیا پارٹی زوال کی جانب گامزن ہے؟

وسیم اختر سمیت دیگر رہنما سابق رہنماؤں کو واپس تنظیم کا حصہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
کمزور تنظیمی ڈھانچے اور مسلسل اختلافات کی وجہ سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کو سندھ کے شہری علاقوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔
کامران ٹیسوری کو ڈپٹی کنوینئر کے عہدے پر بحال کرنے پر تنظیم میں شدید اختلافات پائے جا رہے ہیں۔ تین ارکان اسمبلی سمیت سات ذمہ داران کے احتجاج پر کامران ٹیسوری سیمت دیگر شمولیت اختیار کرنے والے رہنماؤں کی تنظیم میں بحالی کا عمل وقتی طور پر روک دیا گیا ہے۔
جمعے کو ایک بار پھر ایم کیو ایم میں اختلافات کھل کر سامنے آ گئے۔ ایم کیو ایم پاکستان اس وقت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ ایک جانب وفاقی وزیر فیصل سبزواری، سابق مئیر کراچی وسیم اختر اور خواجہ اظہار الحسن سمیت دیگر رہنما پارٹی کے سابق رہنماؤں اور کارکنان کو واپس تنظیم کا حصہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری جانب رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ، رکن صوبائی اسمبلی جاوید حنیف اور محمد حسین سمیت دیگر رہنما ان رہنماؤں کی پارٹی میں واپسی پر پارٹی قیادت سے نالاں ہیں۔

کامران ٹیسوری اور دیگر افراد کی مخالفت

ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ایک سینیئر رکن نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کامران ٹیسوری اور دیگر کی پارٹی شمولیت کے لیے ہونے والے اجلاس کے حوالے سے بتایا کہ ’اس اجلاس میں صرف نو افراد شامل ہوئے اور انہوں نے کامران ٹیسوری کو ناصرف پارٹی میں واپس شامل کرنے کا فیصلہ لیا بلکہ انہیں ایک انتہائی اہم عہدے پر بھی فائز کیا جو کہ پارٹی کی پالیسی اور دستور کے خلاف ہے۔‘

ایم کیو ایم میں پہلی بار اختلافات اس وقت سامنے آئے تھے جب ڈاکٹر فاروق ستار نے کامران ٹیسوری کو سینٹ کا ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

’ایم کیو ایم میں شمولیت اور تنظیم میں واپسی کا ایک طریقہ کار ہے۔ پارٹی کو نقصان پہنچانے والوں کو یوں ایک اجلاس میں ناصرف تنظیم میں شامل کیا گیا بلکہ اہم عہدہ بھی دیا گیا ہے یہ خلاف ضابطہ ہے اور اس کی تنظیم میں شدید مخالفت ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس شمولیت کے اعلان کے بعد سے عارضی مرکز بہادر آباد پر رابطہ کمیٹی کی کوئی بیٹھک نہیں ہوئی ہے۔ سابق میئر وسیم اختر، رکن صوبائی اسمبلی خواجہ اظہار الحسن، وفاقی وزیر فیصل سبزواری سمیت دوسرے دھڑے کا کوئی بھی رکن مرکز نہیں آیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’کامران ٹیسوری اور دیگر کو اہم عہدوں پر فائز کرنے کا فیصلہ وقتی طور پر روک دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے رواں ہفتے رابطہ کمیٹی کا اہم اجلاس منقعد ہو گا جس میں ان رہنماؤں کی واپسی اور انہیں ذمہ داریاں دینے کے حوالے سے تفصیلی غور کیا جائے گا۔‘
یاد رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان میں پہلی بار اختلافات اس وقت سامنے آئے تھے جب سنہ 2018 میں سابق سربراہ ایم کیو ایم پاکستان ڈاکٹر فاروق ستار نے کامران ٹیسوری کو سینٹ کا ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس وقت کے تنظیمی ذمہ داران اور رابطہ کمیٹی نے اس فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے فاروق ستار کو فیصلے پر نظرثانی کا کہا تھا اور یہ معاملہ اس حد بگڑ گیا تھا کہ فاروق ستار نے پارٹی سربراہی سمیت تنظیم سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

’ایم کیو ایم کی صورتحال اس وقت بہت خراب ہے‘

ایم کیو ایم میں جاری کشمکش کے حوالے سے اردو نیوز نے کراچی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی مظہر عباس سے رابطہ کیا تو انہوں نےمتحدہ قومی موومنٹ میں دھڑے بندی کی بات کو درست قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایم کیو ایم کی صورتحال اس وقت بہت خراب ہے۔‘
’ایم کیو ایم اپنی ساکھ کھو بیٹھی ہے، متحدہ قومی موومنٹ کو کسی بھی سطح پر سنجیدہ نہیں لیا جا رہا ہے۔‘

مظہر عباس کے مطابق ’ایم کیو ایم تنظیمی طور پر انتشار کا شکار ہے۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’اس سے پہلے بھی ایم کیو ایم میں تنازعات سامنے آئے ہیں۔ اس وقت کامران ٹیسوری سیمت دیگر کی متحدہ میں شمولیت پر اختلافات موجود ہیں۔ پارٹی کا کل ہونے والا اجلاس بھی نہیں ہوا ہے۔ اب صورتحال خراب سے خراب تر ہورہی ہے، اور ایم کیو ایم زوال کی جانب گامزن ہے۔‘
مظہر عباس کا مزید کہنا تھا کہ’ایم کیو ایم تنظیمی طور پر انتشار کا شکار ہے۔ آنے والے بلدیاتی الیکشن میں بھی متحدہ کی پوزیشن مایوس کن رہنے کے امکانات ہیں۔ اس وقت بھی پارٹی میں تین سے چار گروہ موجود ہیں۔‘
دوسری جانب ایم کیوایم پاکستان نے تنظیم میں اختلافات کی خبروں کی تردید کی ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور وفاقی وزیر سید امین الحق نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایم کیو ایم میں تقسیم کی بات درست نہیں ہے۔ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے، رابطہ کمیٹی میں موجود اراکین تنظیم سے متعلق فیصلوں پر غور فکر کرتے ہیں۔ اس میں حمایت اور مخالفت دنوں میں رائے سامنے آتی ہے۔ ایم کیو ایم ایک جمہوری جماعت ہے اور رابطہ کمیٹی کوئی بھی فیصلہ مشاورت کے بغیر نہیں کرتی۔‘

شیئر: