میرا اور فیملی کا اقامہ ایکسپائر ہے، فائنل ایگزٹ لگ سکتا ہے؟
میرا اور فیملی کا اقامہ ایکسپائر ہے، فائنل ایگزٹ لگ سکتا ہے؟
جمعرات 15 ستمبر 2022 0:06
غیرملکی کارکنوں کا اقامہ فیملی فیس کی ادائیگی کے ساتھ مشروط ہے۔(فائل فوٹوایس پی اے)
سعودی عرب میں امیگریشن قوانین واضح ہیں۔ غیر ملکیوں کے رہائشی کارڈ ’اقامہ ‘ اور ایگزٹ ری انٹری ’خروج وعودہ‘ یا فائنل ایگزٹ جسے عربی میں ’خروج نہائی‘ کہا جاتا ہے کا ذمہ دار ادارہ جوازات ہے۔
جوازات کے قانون کے مطابق فائنل ایگزٹ یعنی خروج نہائی کی کوئی فیس نہیں ہوتی جبکہ ایگزٹ ری انٹری کی فیس مقرر ہے جو کہ ماہانہ حساب سے وصول کی جاتی ہے۔
ایک شخص نے پوچھا ہے کہ میرا اقامہ ایکسپائر ہونے کے ساتھ ہی فیملی کا اقامہ بھی ایکسپائر ہو گیا، کیا اس صورت میں اہل خانہ کے لیے فائنل ایگزٹ ویزا حاصل کر سکتا ہوں؟
سعودی عرب میں امیگریشن قانون کے مطابق غیرملکی کارکنوں کے اہل خانہ پرسال 2017 سے فیملی فیس عائد کی گئی ہے جو کہ پہلے برس 100 ریال ماہانہ فی فیملی ممبرکے حساب سے وصول کی جاتی تھی جبکہ فیس میں ہربرس سو ریال اضافہ کا قانون نافذ کیا۔
فیملی فیس دوسرے برس 200 ریال فی شخص جبکہ تیسرے برس 300 اور چوتھے برس سے 400 ریال فی فرد کے حساب سے وصول کی جاتی ہے ۔ فیس کی وصولی کا سلسلہ جاری ہے جو کہ چارسوریال ماہانہ فی فرد کے حساب سے ہی لی جاتی ہے۔
غیرملکی کارکن کے اہل خانہ کا اقامہ کیونکہ کارکن کے اقامے سے منسلک ہوتا ہے اس لیے اہل خانہ کی فیس کی ادائیگی بھی کارکن کے ہی ذمہ ہوتی ہے۔
فیملی کے ساتھ مملکت میں مقیم غیرملکی کارکنوں کا اقامہ فیملی فیس کی ادائیگی کے ساتھ مشروط ہے۔ فیملی فیس کی ادائیگی کے بغیر کارکن کا اقامہ تجدید نہیں کرایا جاسکتا۔
قانون کے مطابق کیونکہ فیملی کا اقامہ کارکن کے اقامے کی مدت کے مطابق ہوتا ہے اس لیے اگرکارکن کا اقامہ ایکسپائرہوگا تو از خود فیملی کا اقامہ بھی ایکسپائرہوجائے گا۔
واضح رہے امیگریشن قانون کے تحت جن افراد کے اقامے کسی بھی وجہ سے ایکسپائرہوجاتے ہیں جوازات کے سسٹم میں ان کا خروج وعودہ یا خروج نہائی نہیں لگایاجاسکتا۔
کیونکہ فیملی ممبران کا اقامہ بھی سربراہ خانہ کے اقامے سے منسلک ہوتا ہے اس لیے جب تک اقامہ تجدید نہیں کرایاجاتا کسی کا بھی خروج وعودہ یا فائنل ایگزٹ ویزے نہیں لگایاجاسکتا۔
ایک شخص نے استفسار کیا ہے کہ 2017 میں ڈی پورٹ کیا گیا تھا۔ کیا دوبارہ سعودی عرب جا سکتا ہوں۔ مجھے پانچ برس ہو چکے ہیں؟
ماضی میں ڈی پورٹ کیے جانےوالے افراد کے لیے ممنوعہ مدت کا تعین کردیاجاتاتھا جس کے بارے میں ڈی پورٹ ہونے والے افراد کو مطلع بھی کیاجاتا تھا۔
سال رواں سے ڈی پورٹیشن کے قانون میں تبدیلیاں کی گئی ہیں جس کے تحت ایسے افراد جنہیں مملکت سے بے دخل کیاجاتا ہے خواہ کسی بھی سبب کے تحت وہ دوبارہ مملکت میں کسی بھی دوسرے ویزے پرنہیں جاسکتے۔
مذکورہ قانون کے نفاذ سے قبل جن افراد کو ڈی پورٹ کیاجاتا تھا ان پرعام طورپرپابندی کی مدت 5 برس ہوا کرتی تھی جس بعدازاں کم کرکے تین برس کردیا گیا تھا۔
تاہم امسال سے اس قانون میں یکسرتبدیلی کرتے ہوئے ڈی پورٹ ہونے والوں کو تاحیات بلیک لسٹ کردیاجاتا ہے۔