قانون میں ترمیم کے تحت ملزمان کو ریلیف ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔
ملزمان نے نیب ترمیمی ایکٹ کے تحت احتساب عدالتوں میں درخواستیں دائر کیں جنہیں منظور کرتے ہوئے نیب ریفرنسز احتساب عدالتوں نے واپس کر دیے۔
ذرائع کے مطابق ان کیسز میں وزیراعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف رمضان شوگر ملز ریفرنس، سابق وزیر اعظم اور موجودہ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کے چھ ریفرنسزاور سابق وزیراعظم سینیٹریوسف رضا گیلانی کے خلاف یوایس ایف فنڈ ریفرنس شامل ہیں۔
عدالتوں نے سینیٹر سلیم مانڈووی والا اوراعجاز ہارون کے خلاف کڈنی ہلز ریفرنس، سابق وزیراعلی کے پی سردار مہتاب عباسی کے خلاف نیب ریفرنس، پیپلزپارٹی کی سینیٹرروبینہ خالد کے خلاف لوک ورثہ میں مبینہ خرد برد کا ریفرنس سمیت دیگر شخصیات کے خلاف درجنوں کیسز واپس کر دیے ہیں۔
احتساب عدالتوں نے مضاربہ سکینڈل اور کمپنیز فراڈ کے وہ ریفرنسز بھی نیب کو واپس کر دیے ہیں جن میں متاثرین اور شکایت کنندگان کی تعداد 100 سے کم تھی۔
نیب قوانین میں ترامیم
خیال رہے رواں سال اگست میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے نیب دوسرا ترمیمی بل 2022 کثرت رائے سے منظور کر لیا تھا جس کے مطابق نیب 50 کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کر سکے گا۔
بل کے تحت احتساب عدالت کے ججز کی تقرری سے متعلق صدر کا اختیار بھی واپس لے لیا گیا ہے۔ نیب ترمیم کے تحت ملزمان کے خلاف تحقیقات کے لیے دیگر کسی سرکاری ایجنسی سے مدد نہیں لی جا سکے گی۔
بل کے تحت ملزم کا ٹرائل صرف اس کورٹ میں ہو گا جس کی حدود میں جرم کا ارتکاب کیا گیا ہو۔ نیب تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ریفرنس دائر کرے گا۔ پلی بارگین کے تحت رقم واپسی میں ناکامی کی صورت میں پلی بارگین کا معاہدہ ختم ہو جائے گا۔
نیب ترمیمی بل کے مطابق ریفرنس دائر کرنے سے قبل چیئر مین نیب پراسیکیوٹر جنرل کی مشاورت سے ایسی کاروائی منسوخ کر دے گا جو بلا جواز ہو۔ ریفرنس دائر ہونے کے بعد اگر چیئرمین نیب کو لگے کہ ریفرنس بلا جواز ہے تو وہ متعلقہ عدالت سے اسے منسوخ یا واپس لینے کا کہہ سکتے ہیں۔
بل کے تحت نیب آرڈیننس کا اطلاق حکومت کی ایمنسٹی سکیم کے تحت لین دین، ریاستی ملکیت کے اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز پر نہیں ہو گا۔ پچاس کروڑ روپے سے کم کا کیس نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گا۔ صدر وفاقی حکومت کی سفارش پر پراسیکیوٹر جنرل مقرر کرے گا۔
بل میں وفاقی حکومت کو نیب عدالتوں کے قیام کا اختیار دے دیا گیا یے۔ نیب جرائم کے ٹرائل کے حوالے سے وفاقی حکومت جتنی چاہے عدالتیں قائم کر سکتی ہے۔