سیلاب کے بعد پھوٹنے والے وبائی امراض میں اضافہ، سندھ میں 300 سے زائد ہلاک
سیلاب کے بعد پھوٹنے والے وبائی امراض میں اضافہ، سندھ میں 300 سے زائد ہلاک
پیر 3 اکتوبر 2022 6:37
صوبہ سندھ میں یکم جولائی کے بعد سے ملیریا کے 17,285 کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ فوٹو: روئٹرز
پاکستان میں آنے والے بدترین سیلاب کے بعد سے ابھی بھی اکثر علاقوں میں پانی کھڑا ہے جس کی وجہ سے جلد اور آنکھوں کی بیماریوں سمیت ڈائیریا، ملیریا اور ڈینگی سے بڑی تعداد میں افراد متاثر ہو رہے ہیں۔
سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبہ سندھ میں کئی وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں اور محکمہ صحت کو صورت حال سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صوبہ سندھ کے کئی علاقوں میں اب بھی سینکڑوں مربع کلومیٹر علاقے پر سیلاب کا پانی کھڑا ہے اور بڑی تعداد میں متاثرین حکومتی کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں جن کو اپنے گھر چھوڑنا پڑے تھے یا پھر جن کے گھر بہہ گئے تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جن علاقوں میں پانی کھڑا ہے وہاں جلد اور آںکھوں کی بیماریوں کے علاوہ اسہال، ملیریا، ٹائیفائڈ اور ڈینگی کے امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔
یکم جولائی کے بعد سے صوبہ سندھ میں سیلاب سے پھوٹنے والے امراض کی وجہ سے اب تک 316 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 17 ہزار دو سو 85 ملیریا کے کیسز سامنے آ چکے ہیں۔
وبائی امراض سے بچاؤ کے لیے سندھ حکومت کی جانب سے عارضی بنیادوں پر ان علاقوں میں پانچ ہزار معالجین کو بھی بھرتی کیا گیا ہے جہاں وبائی امراض کی شرح زیادہ ہے۔
صوبہ سندھ کے رکن اسمبلی اور پارلیمانی ہیلتھ سیکریٹری قاسم سومرو نے روئٹرز کو بتایا کہ ’سیلاب کے بعد پھوٹنے والے امراض کی شرح بہت زیادہ ہے اور ہمارے پاس ان سے نمٹنے کے لیے وسائل کی کمی ہے۔‘
دوسری جانب اقوام متحدہ نے سیلاب کے بعد وبائی امراض کو ’دوسرا بحران‘ قرار دیتے ہوئے صوبہ سندھ کی صورت حال پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ضلع جام شورو کے شہر سیہون سے گزرنے والی انڈس ہائی وے کے اطراف میں سیلاب زدگان کی بڑی تعداد موجود ہے جو خیموں میں رہائش پذیر ہے۔
سیہون شہر کا مرکزی ہسپتال عبداللہ شاہ انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز جلد اور دیگر وبائی امراض میں مبتلا مریضوں سے بھرا ہوا ہے جہاں سینکڑوں کی تعداد میں مریض ڈاکٹر کی توجہ کے منتظر ہیں۔
30 سالہ ڈاکٹر نوید احمد نے روئٹرز کو بتایا کہ ’ہمارے اوپر کام کا بہت زیادہ دباؤ ہے مگر انہی مریضوں کی دعائیں ہیں کہ ہم ابھی تک کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
ڈاکٹر نوید احمد کا کہنا ہے کہ روزانہ بڑی تعداد میں آنے والے مریضوں میں سے زیادہ تر کو ڈائریا میں مبتلا ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے۔
ڈاکٹر احمد کو خدشہ ہے کہ آنے والے موسم سرما میں اس کے کسیز میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
معاشی مشکلات سے دوچار پاکستان کو سیلاب کے بعد سے مزید چیلنجز کا سامنا ہے۔ سیلاب سے اب تک مجموعی طور پر تقریباً ایک ہزار سات سو افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 30 ارب ڈالر کے قریب نقصان ہوا ہے۔
پاکستان کی حکومت اور اقوام متحدہ نے حالیہ سیلاب کی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا ہے۔