Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’چلے جاؤ‘، ایرانی صدر کی یونیورسٹی آمد پر طالبات کا احتجاج

صدر ابراہیم رئیسی تہران کی الزہرا یونیورسٹی کے دورے پر تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ایران کی ایک یونیورسٹی کے دورے کے موقع پر صدر ابراہیم رئیسی کو ’چلے جاؤ‘ کے نعروں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صدر ابراہیم رئیسی نے تہران میں الزہرا یونیورسٹی کے کیمپس کے دورے کے موقع پر مہسا امینی کی ہلاکت پر احتجاج کی مذمت کی تھی، جس پر طالبات نے نعرے لگانا شروع کر دیے۔
ایرانی صدر نے اساتذہ اور طلبہ سے خطاب میں ایک نظم بھی پڑھی جس میں ’فسادیوں‘ کو مکھیوں سے تشبیہہ دی گئی تھی۔
سماجی حقوق کی ویب سائٹ ’1500تصویر‘ کی جانب سے ٹوئٹر پر پوسٹ کی جانے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبات ’رئیسی چلے جاؤ‘ اور ’ملا چلے جاؤ‘ کے نعرے لگا رہی ہیں۔
پولیس کی حراست میں مہسا امینی نامی خاتون کی ہلاکت سے شروع ہونے والا احتجاج چوتھے ہفتے میں داخل ہو گیا ہے جبکہ ایرانی حکام نے پولیس تشدد سے خاتون کی ہلاکت سے انکار کیا ہے اور اس کی وجہ پہلے سے موجود صحت کے مسائل کو قرار دیا ہے۔
دارالحکومت سمیت ملک کے مختلف حصوں میں جاری احتجاج کے حوالے سے ایک سماجی گروپ کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں اب تک 185 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، سینکڑوں زخمی ہوئے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں گرفتار کیے گئے ہیں۔

احتجاج کرنے والی طالبات کا کہنا ہے کہ اب انہیں کوئی خوف نہیں ہے (فوٹو: عرب نیوز)

انسانی حقوق کی تنظیم ھہ نگاؤ کا کہنا ہے کہ سنیچر کو سنندج اور سقز میں احتجاج کے موقع پر سکیورٹی اہلکاروں نے ایک شخص کو گولی ماری جبکہ آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔
سنندج کردستان صوبے کا دارالحکومت ہے۔ وہاں ایک گاڑی میں بیٹھے ایک شخص کو سکیورٹی اہلکاروں نے اس وقت گولی مار دی، جب اس نے احتجاج کے طور پر ہارن بجایا تھا۔
اسی طرح سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ایک نوجوان عورت زمین پر بے ہوش پڑی ہے اور لوگ اس کی مدد کے لیے اردگرد جمع ہیں۔ اس کے بارے میں خیال ہے یہ مشہد شہر ہے اور خاتون کو گولی ماری گئی ہے۔
ھہ نگاؤ نے ایک اور ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں ایک زخمی شخص دوسرے کی مدد کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے ایک احتجاج کرنے والے کے پیٹ میں گولی ماری ہے، جس سے وہ ہلاک ہو ہو گیا ہے۔
اسی طرح کئی دیگر ٹوئٹر اکاؤنٹس کی جانب سے بھی شمال مغربی کردش شہروں میں فائرنگ کے واقعات کی اطلاع دی گئی ہے۔
احتجاج میں شامل ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ وہ موت یا گرفتاری سے قطعاً خوفزدہ نہیں۔
’وہ ہمیں مار سکتے ہیں، گرفتار کر سکتے ہیں مگر اب ہم مزید خاموش نہیں رہیں گے۔ ہمارے ہم جماعت جیل میں ہیں۔ ہم کیسے چُپ رہ سکتے ہیں۔‘
کریک ڈاؤن کی تصاویر کو پھیلنے اور اکٹھا ہونے کی منصوبہ بندی روکنے کے لیے انٹرنیٹ پر پابندی کے باوجود احتجاج کرنے والے نئے طریقے استعمال کرتے ہوئے اپنے پیغامات ایک دوسرے تک پہنچا رہے ہیں۔
تہران کی مدرس ہائی وے پر لگے بینر پر لکھا گیا ہے ’ہم مزید ڈرنے والے نہیں، ہم لڑیں گے۔‘

شیئر: