ایران کی ایک یونیورسٹی کے دورے کے موقع پر صدر ابراہیم رئیسی کو ’چلے جاؤ‘ کے نعروں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صدر ابراہیم رئیسی نے تہران میں الزہرا یونیورسٹی کے کیمپس کے دورے کے موقع پر مہسا امینی کی ہلاکت پر احتجاج کی مذمت کی تھی، جس پر طالبات نے نعرے لگانا شروع کر دیے۔
ایرانی صدر نے اساتذہ اور طلبہ سے خطاب میں ایک نظم بھی پڑھی جس میں ’فسادیوں‘ کو مکھیوں سے تشبیہہ دی گئی تھی۔
مزید پڑھیں
-
زیرِحراست خاتون کی موت، ایرانی صدر کا تحقیقات کا حکمNode ID: 701636
سماجی حقوق کی ویب سائٹ ’1500تصویر‘ کی جانب سے ٹوئٹر پر پوسٹ کی جانے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبات ’رئیسی چلے جاؤ‘ اور ’ملا چلے جاؤ‘ کے نعرے لگا رہی ہیں۔
پولیس کی حراست میں مہسا امینی نامی خاتون کی ہلاکت سے شروع ہونے والا احتجاج چوتھے ہفتے میں داخل ہو گیا ہے جبکہ ایرانی حکام نے پولیس تشدد سے خاتون کی ہلاکت سے انکار کیا ہے اور اس کی وجہ پہلے سے موجود صحت کے مسائل کو قرار دیا ہے۔
دارالحکومت سمیت ملک کے مختلف حصوں میں جاری احتجاج کے حوالے سے ایک سماجی گروپ کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں اب تک 185 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، سینکڑوں زخمی ہوئے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں گرفتار کیے گئے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ھہ نگاؤ کا کہنا ہے کہ سنیچر کو سنندج اور سقز میں احتجاج کے موقع پر سکیورٹی اہلکاروں نے ایک شخص کو گولی ماری جبکہ آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔
سنندج کردستان صوبے کا دارالحکومت ہے۔ وہاں ایک گاڑی میں بیٹھے ایک شخص کو سکیورٹی اہلکاروں نے اس وقت گولی مار دی، جب اس نے احتجاج کے طور پر ہارن بجایا تھا۔
اسی طرح سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ایک نوجوان عورت زمین پر بے ہوش پڑی ہے اور لوگ اس کی مدد کے لیے اردگرد جمع ہیں۔ اس کے بارے میں خیال ہے یہ مشہد شہر ہے اور خاتون کو گولی ماری گئی ہے۔
ھہ نگاؤ نے ایک اور ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں ایک زخمی شخص دوسرے کی مدد کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے ایک احتجاج کرنے والے کے پیٹ میں گولی ماری ہے، جس سے وہ ہلاک ہو ہو گیا ہے۔
Protests started in Gohardasht, Alborz Province, with chanting “woman, life, freedom.” #مهسا_امینی #MahsaAmini #IranRevolutionpic.twitter.com/SVJvQrTXvN
— 1500tasvir_en (@1500tasvir_en) October 8, 2022
اسی طرح کئی دیگر ٹوئٹر اکاؤنٹس کی جانب سے بھی شمال مغربی کردش شہروں میں فائرنگ کے واقعات کی اطلاع دی گئی ہے۔
احتجاج میں شامل ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ وہ موت یا گرفتاری سے قطعاً خوفزدہ نہیں۔
’وہ ہمیں مار سکتے ہیں، گرفتار کر سکتے ہیں مگر اب ہم مزید خاموش نہیں رہیں گے۔ ہمارے ہم جماعت جیل میں ہیں۔ ہم کیسے چُپ رہ سکتے ہیں۔‘
On 6 Bahman Street in Sanandaj, security forces opened fire on a car and killed the driver, a man.
This individual was shot in the head during the protests.
October 8, 2022#MahsaAmini#NikaShakarami#Kurdistanpic.twitter.com/LKxsgeIwAA
— Hengaw Organization for Human Rights (@Hengaw_English) October 8, 2022