کامران ٹیسوری کے گورنر بننے پر ایم کیو ایم میں اختلافات کیوں؟
کامران ٹیسوری کے گورنر بننے پر ایم کیو ایم میں اختلافات کیوں؟
پیر 10 اکتوبر 2022 12:57
زین علی -اردو نیوز، کراچی
کامران ٹیسوری نے2017 میں ایم کیو ایم میں شمولیت اختیار کی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے صوبہ سندھ میں گورنر کی تعیناتی کے بعد وفاق میں اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا ایک مطالبہ تو پورا ہوگیا، تاہم اسے ایم کیو ایم پاکستان کی کامیابی سمجھا جائے یا ناکامی یہ ایک سوال ہے۔
حال ہی میں ایم کیو ایم کا دوبارہ حصہ بننے والے کامران ٹیسوری گورنر تو بن گئے لیکن تنظیم کے معاملات اور رہنماؤں کے اختلافات بھی زبان زد عام ہیں۔
تنظیمی فیصلوں میں مشاورتی عمل نہ ہونے کی وجہ سے ایم کیو ایم پاکستان کے اہم رہنما تنظیمی ذمہ داران سے ناراض ہو کر بیرون ملک روانہ ہوگئے ہیں۔ کامران ٹیسوری کے گورنر تعینات ہونے پر ایم کیو ایم پاکستان کے بیشتر مرکزی رہنماؤں نے انہیں مبارکباد اور نیک خواہشات کے پیغامات تک نہیں بھیجے۔
ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کے ایک اہم رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ کامران ٹیسوری کی ایم کیو ایم میں واپسی پر کئی رہنماؤں کی ناراضگی ابھی برقرار ہی تھی کہ اچانک انہیں گورنر تعینات کرنے کی خبر سامنے آگئی۔
انہوں نے بتایا کہ یہ خبر اراکین رابطہ کمیٹی سمیت دیگر ذمہ داران کے لیے بھی حیران کن تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کامران ٹیسوری کی تعیناتی کی خبر بھی زرائع ابلاغ سے ہی ملی ہے۔
’پارٹی قیادت کی جانب سے تعیناتی سے قبل اعتماد میں بھی نہیں لیا گیا۔ اس فیصلے کے بعد تنظیم کے اہم رہنما ناراض ہو کر بیرون ملک روانہ ہوگئے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ رابطہ کمیٹی کے مشاورتی اجلاس میں پہلے مرحلے میں نسرین جلیل اور عامر چشتی سمیت پانچ افراد کے نام پیش کیے گئے تھے، ان ناموں پر غور کرنے کے بعد رابطہ کمیٹی نے نسرین جلیل کو فائنل کیا تھا۔
’نسرین جلیل کی تعیناتی پر کچھ افراد کے اعتراضات ضرور تھے جنہیں دور کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ اس کے علاوہ گزشتہ دنوں ایک اجلاس میں عبدالوسیم کا نام بھی زیر غور آیا تھا اور ضمنی طور پر کامران ٹیسوری، کا ذکر بھی ہوا تھا۔‘
دوسری جانب صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے گورنر کی تعیناتی کا سرکاری اعلامیہ جاری ہونے کے بعد اتوار کی شام ترجمان ایم کیو ایم پاکستان نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں کامران ٹیسوری کے گورنر بننے پر نیک خواہشات کا اظہار کیا اور صوبے کی حالت بہتر ہونے کی امید کا اظہار کیا۔
یاد رہے کہ ایم کیوایم پاکستان نے حال ہی میں کامران ٹیسوری کو نہ صرف تنظیم میں واپس لینے کا فیصلہ کیا بلکہ انہیں رابطہ کمیٹی میں ڈپٹی کنوینر کا عہدہ بھی واپس دیا گیا تھا۔ اس فیصلے پر رکن قومی اسمبلی سمیت سات ذمہ داران نے شدید احتجاج کیا تھا اور پارٹی سرگرمیوں سے علحیدگی اختیار کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رکن رابطہ کمیٹی نے مزید بتایا کہ کامران ٹیسوری کی واپسی کا فیصلہ پارٹی قیادت کے اختیار میں بھی نہیں تھا، مرکزی قیادت بھی اس فیصلے سے خوش نہیں تھی البتہ انہوں نے یہ فیصلہ کیا جس پر انہیں شدید مخالفت اور تنقید کا بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ کامران ٹیسوری نے سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے ذریعے سال 2017 میں ایم کیو ایم پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی۔
کامران ٹیسوری ایم کیو ایم پاکستان کے سابق سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کے قریبی ساتھی رہے ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان سے فاروق ستار کی علحیدگی کی بنیادی وجہ کامران ٹیسوری کے سینیٹ الیکشن میں ٹکٹ سے ہی بنی تھی۔ بعد ازاں ایم کیوایم کے تین حصے سامنے آئے جن میں ایک ایم کیو ایم لندن، دوسرا ایم کیو ایم بہادر آباد اور تیسرا ایم کیو ایم پی آئی بی شامل تھے۔
فاروق ستار نے الگ شناخت اختیار کی اور متحدہ بحالی کمیٹی کے نام سے اب تک اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، جبکہ کامران ٹیسوری ایم کیو ایم پاکستان کے ڈپٹی کنوینر ہیں۔
سینیئر صحافی رفعت سعید نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایم کیو ایم کی تاریخ میں اس سے پہلے بھی اس نوعیت کی شخصیات کی انٹری ہوتی رہی ہے جس کی مثال نبیل گبول کی صورت میں موجود ہے۔
’ان شخصیات کو نہ صرف پارٹی میں شامل کیا گیا بلکہ سربراہ ایم کیو ایم الطاف کی رہائش گاہ اور متحدہ قومی موومنٹ کے سب سے مضبوط علاقے عزیز آباد کی نشست سے رکن قومی اسمبلی بنایا گیا۔ تاہم الطاف حسین کے فیصلوں پر بات کرنے یا ان پر اعتراض کرنے کا رواج کبھی نہیں دیکھا گیا۔‘
ایم کیوایم کے دھڑوں کو ایک جگہ جمع کرنے کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کئی عرصے سے کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن آپس کے معاملات اس حد تک خراب ہیں کہ یہ ایک مشکل معاملہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عام طور پر یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کامران ٹیسوری کی واپسی اور اہم عہدہ ایک بار پھر ایم کیو ایم کے تقسیم دھڑوں کو جوڑنے کی کوشش ہے تاہم گزشتہ دنوں میں ہونے والی ملاقاتوں میں ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔