عبدالحکیم بلوچ کراچی کے علاقے ملیر کے رہائشی ہیں اور ایک سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔
کراچی کے مضافاتی علاقے ملیر میں عبدالحکیم ایک قدآور سیاسی شخصیت ہیں۔ سال 2018 میں منتعد ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو اس حلقے سے ٹف ٹائم دینے والے بھی عبدالحکیم بلوچ ہی تھے۔
عبدالحکیم بلوچ کراچی کے ضلع ملیر میں واقع درسانو چھنو سے متصل گاؤں دُرمحمد گوٹھ سے تعلق رکھتے ہیں۔
عبدالحکیم بلوچ نے کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینیئرنگ سے 1979 میں الیکٹرانک انجینیئرنگ میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔
وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر رکن سندھ اسمبلی بھی رہے اور صوبائی وزیر بھی مقرر ہوئے۔
عبدالحکیم بلوچ پیپلز پارٹی سے اختلافات کے باعث 2013 میں پاکستان مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر بنے۔ اس وقت کی حلقہ بندیوں کے حساب سے یہ حلقہ این اے 285 تھا۔
اس سے قبل اس علاقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما شیر محمد بلوچ تین بار اور پیپلز پارٹی کے ہی عبدالحفیظ پیرزادہ دو بار کامیاب ہوچکے ہیں جبکہ ایم کیوایم بھی تین بار اس علاقے سے قومی اسمبلی کی نشست حاصل کرچکی ہے اور ایک آزاد امیدوار بھی ماضی میں اس علاقے سے کامیاب ہوچکا ہے۔
2018 کے عام انتخابات میں عبدالحکیم بلوچ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا تھا لیکن اس الیکشن میں انہیں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار جمیل احمد کے سامنے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
جمیل احمد خان کی کامیابی کو عبدالحکیم بلوچ نے چیلنچ کیا تھا اور اس حلقے کی دوبارہ گنتی کی گئی۔
دوبارہ گنتی پر بھی عبدالحکیم بلوچ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ گنتی کے وقت 15 سو ووٹوں کا فرق آیا تھا جس پر الیکشن کمیشن نے جمیل احمد کی کامیابی کا نوٹی فکیشن جاری کیا تھا۔
2022 میں ضمنی انتخاب کے موقع پر عبدالحکیم بلوچ کو ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف کا سامنا کرنا پڑا اور اس بار امیدوار پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان تھے۔
اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں عبدالحکیم بلوچ نے پی ٹی آئی امیدوار کو 10 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی۔
عبدالحکیم بلوچ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملیر کے عوام نے پاکستان تحریک انصاف سے 2018 کا بدلہ لے لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میری پیدائش کراچی کی ہے۔ میں اپنے حلقے کے لیے کام کروں گا۔ میری اولین خواہش ہوگی کہ ملیر کے گرین بیلٹ کو بچائیں۔‘