Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حافظ یوسف سدیدی ، بیتے ہوئے ایام کی یادیں

حافظ صاحب بہترین معلم تھے، ان کے سمجھانے کا انداز بڑا سادہ اور دلنشیں تھا، میرے جیسا آدمی بھی خط کوفی کے اصول سمجھنے لگ گیا
* * *عبدالمالک مجاہد۔ ریاض* * *
حافظ محمد یوسف سدیدی پاکستان کے مایہ ناز خطاط تھے۔ ان کو خوشنویسی کے میدان میں اتھارٹی تسلیم کیا جاتا ہے۔وہ عبد المجید زریں رقم،حامد الآمدی اور ہاشم بغدادی جیسے نامور خطاطوں کے فن سے متاثر تھے۔آپ تاج الدین زریں رقم اور منشی محمد شریف لدھیانوی جیسے عظیم خوشنویسوں کی شاگردی میں رہے۔ حافظ صاحب کے شاگرد پاکستان کے طول وعرض میں بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔خالد جاوید یوسفی اور منظر رقم جیسے نامور خطاط ان کے شاگردوں میں شامل ہیں۔مینار پاکستان، جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ کی جامع مسجد،مسجد شہداء اور دیگر کئی ایک مشہور عمارتیں ان کی خطاطی کے فن پاروں سے مزین ہیں۔
حافظ صاحب نے 1927ء میں اس دنیا میں آنکھ کھولی اور 1987ء میں لاہور میں وفات پائی اور دھپ سڑی ساندہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔زیر نظر مضمون ان کی زندگی کے بعض گوشوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ مارچ 1980ء کا سال تھا جب میں روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب کے شہر ریاض پہنچا۔ میرے کفیل کی ہینڈی کرافٹس کی دکان تھی۔وہ شامی النسل تھا اور اسے سعودی نیشنلٹی ملی ہوئی تھی۔ چند ہی ماہ بعد اس نے مجھے یہ کہہ کر فارغ کر دیا کہ تم میرے کسی کام کے نہیں ہو۔
دراصل اسے ماڈرن قسم کا لڑکا درکار تھا جس کا دین کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہ ہو۔ ادھر میری یہ حالت کہ جیسے ہی اذان ہوتی، میں بڑی لجاجت سے اسے کہتا: سر! کیا میں نماز کے لیے جا سکتا ہوں؟ یہاں سے فارغ ہوا تو نوکری کی تلاش میں مروہ ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں جا پہنچا۔ وہاں پر جہلم کے علاقے سے تعلق رکھنے والے منظور حسین آرٹ سیکشن کے انچارج تھے۔ پاکستانیوں سے محبت کرتے تھے۔ان کے یہاں نوکری مل گئی۔ جلد ہی میں نے وہاں پر اپنا اچھا مقام بنا لیا۔ کوئی 6سے 8 ماہ وہاں گزارے، پھر وہاں سے استعفیٰ دے دیا، پھر ادارہ تعلیم البنات میں سرٹیفیکیٹ لکھنے کے لیے خطاط کی پوسٹ پر درخواست دے دی۔ ایک آدھ ماہ چکر لگانے کے بعد نوکری تو مل گئی مگر کچھ قانونی پیچیدگیاں تھیں جن کی وجہ سے انہوں نے مجھے کفالت منتقل کیے بغیر ویسے ہی کام پر رکھ لیا۔ نوکری پکی تو نہ تھی مگر میں نے 2500 سرٹیفیکیٹ صرف ایک ماہ اور4 دنوں میں لکھ ڈالے۔ ان کا معاوضہ ساڑھے 7 ہزار ریال کی صورت میں مل گیا۔ اس زمانے میں یہ بہت بڑا معاوضہ تھا۔ جتنے قرضے تھے سب اتر گئے۔
خود حج کیا، والدہ صاحبہ کو حج کروایا۔ شادی کے لیے رقم جمع ہو گئی۔ اسی دوران قسمت نے یاوری کی اور مجھے وزارۃ الدفاع میں خطاط کی نوکری مل گئی۔ معقول نوکری، اچھی تنخواہ، وزارت میں پاکستانیوں کی بے حد عزت تھی۔ ہمارے ادارے کے سربراہ ایک سعودی شہزادہ تھے جو خطاطی کو بڑا پسند کرتے تھے۔ وقت تیزی سے گزرتا چلا گیا۔ شادی ہو گئی، شادی کے فوراً بعد اہلیہ بھی آ گئی۔ ہرچند کہ میں وزارۃ الدفاع میں ملازم تھا مگر ’’مروہ للإعلان‘‘ کے ساتھ بھی رابطہ برقرار رہا۔ کبھی کبھار پرانے دوستوں سے ملنے چلا جاتا۔ ایک دن مروہ کے ایک پرانے کارکن اکرم رانا نے مجھے بتایا کہ یار پاکستان سے ایک خطاط آیا ہے جس نے تمام مصری خطاطوں کو بھی مات کر دیا ہے۔ میں نے سنی اَن سنی کر دی۔
اس نے پھر بتایا کہ یوسف نامی یہ خطاط بڑا ہی زبردست خطاط ہے۔ میں نے محترم حافظ یوسف سدیدیؒ کا نام ضرور سن رکھا تھا۔ ان کا غائبانہ مداح بھی تھا مگر کبھی ان سے ملاقات نہ ہوئی تھی۔ یوں بھی وہ پاکستان کے مایۂ ناز خطاط تھے۔ اس لیے ان جیسی شخصیت سے عام آدمی تو مل نہیں سکتا تھا۔ میں حافظ آباد کا رہنے والا تھا جو لاہور سے 3 گھنٹوں کی مسافت پر تھا۔ ادھر میرے ذہن میں ان کا مکمل نام حافظ یوسف سدیدی تھا۔ ادھر اکرم رانا مسلسل یوسف صاحب کا نام لیتے تھے۔ کچھ عرصہ مزید گزر گیا۔ سعودی عرب آئے4 سال گزر گئے تھے کہ ایک دن پھر حافظ صاحب کا نام آیا۔ رانا کہنے لگا: وہ بڑی متواضع شخصیت ہیں مگر بہت بڑے اعلیٰ درجے کے فنکار اور خطاط ہیں۔ وہ چٹکیوں میں اتنا خوبصورت لکھتے ہیں کہ آدمی دیکھتا رہ جاتا ہے، ادھر میں نے پھر سے غور کرنا شروع کیا۔
اچانک حافظ صاحب کا پورا نام ذہن میں آ گیا۔ میں نے کہا: رانا! جن کا تم نام لے رہے ہو کہیں وہ حافظ یوسف سدیدی صاحب تو نہیں؟ کہنے لگا: ہاں، ہاں! یہی ان کا پورا نام ہے۔ میں نے اسے ملامت کی کہ اللہ کے بندے تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ میں تو ان سے ملنے کا بے حد خواہش مند ہوں۔ اگلے ہی دن شام کے وقت میں حافظ صاحب کے پاس ان کے دفتر میں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ حافظ صاحب کن حالات میں سعودی عرب آئے اس کا تو مجھے معلوم نہیں مگر اتنا معلوم تھا کہ لاہور جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ کی مسجد میں انھوں نے خطاطی کی ہے۔ سعودی عرب کی ایک ممتاز شخصیت کے خلیل حامدی کے ساتھ تعلقات تھے۔ ان کی معرفت یہ کام کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ میں نے مروہ للاعلان کو چھوڑا ضرور تھا مگر پرانے دوستوں کے ساتھ تعلقات باقی تھے۔ سب کے ساتھ رابطہ رہتا تھا۔ اس روز حافظ صاحب نے اچکن پہن رکھی تھی۔ پوری داڑھی، سر پر قراقلی ٹوپی، میں خاصی دیر تک انہیں ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا کہ یہی وہ پاکستان کے مایہ ناز خطاط ہیں جن کی بہت زیادہ شہرت ہے۔ جلد ہی ہم بے تکلف ہو گئے۔
ان کی ڈیوٹی کا وقت ختم ہوا تو میں انہیں اپنی گاڑی میں اپنے گھر لے آیا۔ ہم نے اکٹھے کھانا کھایا۔ ہم باتیں کرتے رہے۔ رات گئے میں انہیں ان کی رہائش گاہ پر چھوڑ آیا۔ ریاض میں میرے گھر کے نیچے ایک مصری خطاط رہتا تھا جو فیصل فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام نکلنے والے ماہنامہ ’’الفیصل‘‘ میں کام کرتا تھا۔ ایک دن تعارف ہوا، وہ بلاشبہ خط ثلث، رقعہ، دیوانی اور کوفی کا ماہر تھا۔ لوجی! اس کے ساتھ دوستی پکی ہو گئی۔ میں نے اس سے مشق لینی شروع کر دی۔ اسے اپنا استاد بنا لیا۔ چونکہ وہ گھر کے نیچے گراؤنڈ فلور پر رہتا تھا، اس لیے رات کے وقت روزانہ ہی اس کے پاس چلا جاتا۔ اس زمانے میں مجھے خط کوفی سیکھنے کا دیوانگی کی حد تک شوق تھا۔ اب محترم حافظ صاحب سے بھی دوستی ہو گئی۔
ہفتہ کے اختتام پر ان سے ملاقات ہو جاتی۔ میں ان کو عموماً گھر لے آتا۔ ہم کافی دیر بیٹھے رہتے، کھانا کھلا کر واپس ان کے گھر چھوڑ آتا۔ ان کا گھر بطحاء کے علاقے میں بڑے پوسٹ آفس کے سامنے والی گلی میں تھا۔ پتلی سی گلی تھی۔ رہائش کمپنی کی طرف سے تھی۔ ان کے ساتھ سارے بیچلر لڑکے رہتے تھے۔ وہ رات گئے تک فلمیں دیکھتے۔ مجھے محسوس ہونا شروع ہو گیا کہ حافظ صاحب ان سے خاصے تنگ ہیں۔ ادھر میرا شوق تھا کہ میں ان کی شاگردی اختیار کروں۔ یوسف مصری سے بھی شاگردی چل رہی تھی۔ آخر ایک دن دل کی بات زبان پر لے ہی آیا۔ میں نے درخواست کی تو انہوں نے اسے رد کر دیا۔ فرمانے لگے: میں بہت مصروف رہتا ہوں، اس لیے سعودی عرب میں کسی کوشاگرد بنانا بڑا مشکل ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ میں ہر آنے والے دن میں ان کا عقیدت مندہوتا چلا گیا۔ وہ بڑے ا علیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ نرم گفتگو کرتے، کبھی کبھار میں ان کے لیے مارکیٹ سے خطاطی کا کام بھی لے آتا۔ اس کا جو معاوضہ ملتا وہ وصول کر کے ان کی خدمت میں پیش کردیتامگر یہ کام نہ ہونے کے برابر تھا۔ میری عمر اس وقت 27، 28 سال کی ہو گی۔ آگے بڑھنے اور کچھ کر گزرنے کا بے پناہ شوق تھا۔
خط کوفی میری کمزوری بنتی جا رہی تھی۔ حافظ صاحب سے اکثر ملاقات رہتی۔ میرے گھر کے قریب ایک ترکی ہوٹل تھا۔ اس ترکی ہوٹل کے کباب حافظ صاحب کو بڑے پسند تھے۔ اسی دوران اکرام الحق صاحب کے ساتھ بھی تعارف ہو گیا۔ ان کا تعارف بھی حافظ صاحب نے کروایا۔ یہ نستعلیق لکھنے کے بڑے ماہر تھے۔ بڑا ہی خوبصورت لکھتے تھے۔ بعد میں جب دارالسلام بنا تو آخری دم تک ادارے کے ساتھ ان کا تعلق باقی رہا۔ ایک دن میں نے حافظ صاحب سے پوچھا:حافظ صاحب! یہ بتائیں کہ آپ کے روزمرہ کے معمولات کیا ہیں؟ دراصل میں ہر حالت میں ان کا شاگرد بننا چاہتا تھا۔ فرمانے لگے: میں صبح سویرے اٹھتا ہوں، نماز ادا کرتا ہوں، پھر وہیں مصلے پر بیٹھے بیٹھے قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہوں، پھر میں ناشتہ تیار کرتا ہوں، پھر ناشتہ کرتا ہوں۔ چائے پینے کے بعد تھوڑے بہت گھر کے کام کرتا ہوں اور پھر دفتر کے لیے روانہ ہوتا ہوں۔ ان کا دفتر ان کی رہائش گاہ سے کوئی 10 کلو میٹر دور ہو گا۔ بس پر دو ریال لگتے تھے اور وہ ان کے دفتر کے قریب پہنچا دیتی تھی۔ میں نے عرض کی:حافظ صاحب! ذرا پھر سے اپنے معمولات گنوائیے۔ انھوں نے پھر صبح کی نماز، قرآن پاک کی تلاوت اور ناشتہ بنانے کی بات کی۔ میں نے پوچھا: ناشتہ بنانے پر کتنا وقت لگتا ہے؟ فرمانے لگے: یہی کوئی 15،20 منٹ۔ میں نے عرض کی: حافظ صاحب! ناشتہ بنانے کے یہ 15 منٹ مجھے دے دیجیے۔ کیا مطلب؟ انہوں نے پوچھا۔ میں نے عرض کی: بس کل سے آپ کا ناشتہ میں اپنے گھر سے لے آیا کروں گا۔
آپ جتنے وقت میں ناشتہ بناتے ہیں، وہ مجھے دے دیں اور اس وقت مجھے خط کوفی سکھا دیا کریں۔ پھر میں آپ کو اپنی گاڑی پر آپ کے دفتر چھوڑ دیا کروں گا۔ میرا دفتر اس زمانے میں ساڑھے 7 بجے اور ان کا دفتر ساڑھے 8 بجے شروع ہوتا تھا۔ میری بات خاصی معقول تھی۔ انہوں نے ہاں کہہ دی، میں نے اہلیہ سے بات کی کہ اب تمہیں صبح صبح ہمارا ناشتہ بنانا ہو گا۔ اگلے دن میں فجر کی نماز پڑھ کر آیا تو وہ اللہ کی بندی تھرماس میں چائے ڈال رہی تھی۔ میں نے ناشتہ اور چائے کا تھرماس اٹھایا۔ قلم دوات اور قرطاس ہمراہ لیے اور حافظ صاحب کے گھر کی طرف گاڑی کا رخ موڑ دیا۔ ان کا گھر میری رہائش سے کوئی15 منٹ کی ڈرائیونگ پر تھا۔ صبح صبح سڑکیں خالی ہوتی ہیں۔ پارکنگ کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ حافظ صاحب ابھی تلاوت ہی کررہے تھے کہ میں نے ان کے گھر آکر السلام علیکم کہا۔ لوجی اب میں ان کا باقاعدہ شاگرد بن گیا تھا۔ میں نے ان سے پہلی مشق لی۔ سبحان اللہ! حافظ صاحب بہترین معلم تھے۔ ان کے سمجھانے کا انداز بڑا سادہ اور دلنشیں تھا۔ میرے جیسا آدمی بھی خط کوفی کے اصول سمجھنے لگ گیا۔
مشق لینے کے بعد ہم نے مل کر ناشتہ کیا۔ انہوں نے دفتر جانے کی تیاری شروع کر دی اور میں قلم سے کاغذ پرکھیلنے لگ گیا۔ میرا دفتر چونکہ ساڑھے 7 بجے لگتا تھا اور وقت کی کوئی خاص پابندی نہ تھی،8 بجے تک بھی، بلکہ سچ پوچھیں تو کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا۔ میرے دفتر والوں کو کام سے غرض تھی۔ میں کام الحمدللہ! اتنا تیز کرتا کہ چند گھنٹوں میں کام ختم ہوجاتا۔ میں پہلے حافظ صاحب کو ان کے دفتر چھوڑتا پھر اپنے دفتر میں جاتا۔ میں بڑا خوش تھا کہ میری خط کوفی سیکھنے کی خواہش پوری ہو رہی تھی۔ حافظ صاحب میری خوب حوصلہ افزائی کرتے۔ جب کبھی میں کہتا: حافظ صاحب! یہ لفظ بن نہیںپا رہا۔ فرماتے: کیسے نہیں بن رہا؟ ذرا ادھر دیکھیں اور پھر چند ہی لمحوں میں وہ لفظ کاغذ کی زینت بن چکا ہوتا۔ میں نے ان سے کوفی کے علاوہ دیوانی، رقعہ اور نستعلیق بھی کچھ نہ کچھ سیکھ لیے۔
قارئین کرام! خطاطی کے کام کو عروج پر پہنچانے کے لیے خوب ریاضت چاہیے۔ مشق کے لیے وقت چاہیے۔ میں اس زمانے میں 3 نوکریاں کرتا تھا۔ رات کو گھر آتا تو ایک سعودی خطاط موسیٰ العتیبی خطاطی کے لیے کچھ الفاظ لے آتا۔ منسٹری آف پٹرولیم پہاڑوں کے نقشے بنا رہی تھی۔ ان نقشوں پر عربی میں پہاڑوں، وادیوں اور چوٹیوں کے نام لکھنے ہوتے تھے۔ یہ الفاظ خاصے لمبے ہوتے تھے۔
میں نے مروہ کی نوکری کے دوران ایک مصری خطاط سے پیمانے کے ساتھ عربی زبان لکھنے کی خطاطی سیکھ لی تھی۔ مثلاً: نقشے پر8 سینٹی میٹر جگہ ہے اور آپ نے وادی حنیفہ کا لفظ لکھنا ہے۔ اب وادی کا لفظ تو کھینچ نہیں سکتے مگر حنیفہ کے لفظ کو لمبا کرکے لکھ سکتے ہیں۔ اسے سیدھا رکھنے کے لیے قلم کے ساتھ پیمانہ رکھ لیں تو بڑی آسانی کے ساتھ آپ الفاظ لکھ سکتے ہیں۔ مجھے اس کام میں خوب مہارت ہو گئی تھی۔ وہ رات کو کچھ ’’الفاظ‘‘ کتابت کے لیے میرے گھر آکر دے جاتا، میں نے ان الفاظ کو پلاسٹک کی فلم پر لکھنا ہوتا تھا، جسے کلک کا نام دیتے تھے۔ معاوضہ 3 ریال فی لفظ دیتا جوکہ بڑا ہی معقول تھا۔
بعض اوقات ایک لفظ آدھے منٹ یا اس سے بھی کم مدت میں لکھ لیتا۔ بعض اوقات حافظ صاحب کو یہ خطاطی دکھاتا تو وہ حوصلہ افزائی فرماتے۔ حافظ صاحب کے ساتھ صبح کا ناشتہ، اصلاح لینا اور پھر انہیں دفتر چھوڑنے کا کام ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ بس ایک خامی تھی کہ ساڑھے 8 کے بجائے میں وقت سے پہلے حافظ صاحب کو ان کے دفتر پہنچا دیتا۔ ادھر مجھے بھی اپنے دفتر ساڑھے 7 بجے پہنچنا ہوتا تھا۔ ایک دن حافظ صاحب نے اس طرف توجہ دلائی۔ کہنے لگے: تمہاری وجہ سے مجھے دفتر میں وقت سے پہلے جانا پڑتا ہے۔ میں نے عرض کی: اس مسئلہ کا حل بھی میرے پاس موجود ہے۔ فرمانے لگے کیسے؟ میں نے عرض کی: بس ایک دن اور انتظار فرما لیں۔ میں وزارۃ الدفاع والطیران آرمی ایوی ایشن میں ملازمت کر رہا تھا۔ ادارہ کے کمانڈر پرنس فیصل بن محمد بن سعود الکبیر تھے۔
یہ شاہ فہد بن عبدالعزیز کے چچازاد بھائی تھے۔ بڑے خوبصورت، لمبے قد کے بڑے ہی اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ جب دفتر آتے تو ادارے میں ہلچل مچ جاتی۔ ان کی عادت تھی کہ دفتر کا ایک چکر لگاتے۔ زور زور سے بولتے، دور سے معلوم ہو جاتا کہ امیر فیصل آ رہے ہیں۔ سارا سعودی عملہ ان سے خوب ڈرتا تھا مگر ہم لوگ ان سے ڈرنے کی بجائے ان سے محبت کرتے تھے۔ جب وہ کاریڈرو میں داخل ہوتے تو دروازوں پر کھڑے ہو کر ہر ایک سے ہیلو ہائے کہتے ہوئے آگے بڑھ جاتے۔
انہیں خطاطی سے غیر معمولی محبت تھی۔ خطاط تو نہ تھے مگر ان کا ہینڈ رائٹنگ بہت خوبصورت تھا۔ میرا کمرہ سب سے آخر پر تھا۔ عموماً میرے کمرے کے سامنے رک جاتے۔ میرا حال احوال پوچھتے، اونچی اونچی آواز میں بولتے ہوئے اسٹاف کو بعض احکامات جاری کرتے، بعض سوالات کرتے۔ مجھے ینگ مین کہہ کر پکارتے۔ میں ان دنوں واقعی ینگ مین تھا۔ اس روز بھی حسب معمول آئے۔ میرے کمرے کے سامنے کھڑے ہوئے۔ مجھے ہیلو ینگ مین کہا۔ عموماً پوچھتے: کوئی مسئلہ، کوئی بات؟ اس روز بھی انہوں نے جب مجھ سے کہا: کوئی، مسئلہ کوئی بات؟ تو میں نے انہیں بتایا کہ میں اپنی خطاطی کو مزید بہتر بنانے کے لیے ایک کورس کر رہا ہوں جس کے لیے مجھے دفتر سے صبح2 گھنٹے کی چھٹی چاہیے۔ انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور وہیں سے آواز لگائی کہ کل سے عبدالمالک ڈھائی گھنٹے لیٹ آیا کرے گا۔ سارا عملہ چپ چاپ سن رہا تھا۔ سب کو معلوم ہو گیا کہ کل سے عبدالمالک دو ڈھائی گھنٹے لیٹ ہو گا۔
میں کئی ماہ تک حافظ صاحب کو ان کی مرضی کے مطابق ساڑھے 8 بجے دفتر چھوڑتا رہا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مجھے اشاعتی ادارہ بنانے کا شوق پیدا ہو چکا تھا۔ میں اور حافظ صاحب اکثر ترکی ریسٹورنٹ میں بیٹھتے، کباب کھاتے اور ترکی جانے کے منصوبے بناتے۔ ہمارے ساتھ اکرام الحق بھی شامل ہوتے۔ حافظ صاحب کو ترکی خطاط حامد الآمدی سے ملنے کا بڑا شوق تھا۔ اس زمانے میں ریاض سے ترکی کے لیے روزانہ بسیں جاتی تھیں۔ ہم بس پر جانے کا پروگرام بنارہے تھے تاکہ خرچہ زیادہ نہ ہو۔ اس زمانے میں بس کے ذریعے ترکی جانے کا کرایہ ڈھائی سو ریال تھا۔ وقت گزرتا چلا گیا۔ میں نے اشاعتی کمپنی بنانے کا خاکہ بنانا شروع کر دیا۔ حافظ صاحب اور اکرام الحق صاحب کو بھی اپنی منصوبہ بندی سے آگاہ کرتا۔ ان کی اشیرباد حاصل کرتا۔ انہیں مشوروں میں شریک کرتا۔ دراصل میں کمپیوٹر خریدنا چاہتا تھاجس کی قیمت اس زمانے میں ایک لاکھ30 ہزار ریال تھی جو کہ بڑی خطیر رقم تھی۔ اسی دوران پاکستان سے جماعت اسلامی کے بہت بڑے رہنما اور ادارۃ المعارف کے سربراہ محترم خلیل احمد حامدی ریاض آئے۔ میں نے ان کا نام سنا ہوا تھا مگر کبھی ملاقات نہ ہوئی تھی۔ میری خواہش تھی کہ وہ میرے گھر آئیں چنانچہ حافظ صاحب کی معرفت ان سے رابطہ ہوا اور وہ میرے گھر عشائیہ پرآئے۔ اس طرح اسلامک پبلی کیشنز کے اخلاق حسین صاحب بھی غالباً انہی کے کہنے پر میرے گھر آئے تھے۔ ایک دن حافظ صاحب فرمانے لگے: ہم ایک ’’بیٹھک کاتباں‘‘ بنانا چاہتے ہیں۔
میں نے عرض کی: حافظ صاحب! ضرور بننی چاہیے۔ دراصل وہ جس رہائش گاہ میں تھے، وہاں کے ماحول سے خوش نہ تھے۔ وہاں زیادہ تر غیر شادی شدہ نوجوان رہتے تھے جن کا مزاج حافظ صاحب کے مزاج سے خاصا مختلف تھا۔ ایک دن فرمانے لگے: بھئی عبدالمالک! میں نے تمہیں کہا تھا کہ ہمیں بیٹھک کاتباں بنانی ہے۔ اسے کب بناؤ گے۔ جب تک تخت پوش پر بیٹھ کر دیوار کے ساتھ کمر لگا کر خطاطی نہ کی جائے مزا نہیں آتا۔ خود میری بھی خواہش تھی کہ حافظ صاحب کا زیادہ سے زیادہ قرب حاصل ہو۔ اگر بیٹھک کاتباں بن جائے تو چلیے سعودی عرب میں حافظ صاحب کا سب سے پہلا شاگرد میں ہوں گا۔ میں نے سوچا۔
(جاری ہے)

شیئر: